تارکین وطن کو فیملی ویزے دلانے کیلئے جرمنی میں کون متحرک

0

برلن: تارکین وطن کے لئے بانہیں کھولنے والے ملک کی شہرت رکھنے والے جرمنی میں چرچ بھی تارکین کو پناہ فراہم کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں، ایسے میں اب دونوں بڑے چرچز کے سربراہان حکومت سے مہاجرین او ر دیگر تارکین کو اہم سہولت دلانے کیلئے متحرک ہوگئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل ڈے آف فیملیز سے قبل جرمنی کے دونوں بڑے چرچز کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے کے سربراہان حکومت سے مہاجرین اور دیگر تارکین وطن کو فیملی ری یونین کی سہولت دینے کا مشترکہ مطالبہ کردیا ہے، انہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ملک میں مقیم تارکین وطن کے خاندانوں کو ان سے ملوانے کے لئے فیملی ری یونین کیسز کا طریقہ کار آسان اور تیز بنائے، تا کہ یہ مہاجرین اپنے خاندانوں کو جرمنی بلواسکیں اور ان کے ساتھ سکون کی زندگی گزار سکیں، کیتھولک آفس برلن کے چیف کارل جسٹن اور کونسل آف پروٹسٹنٹ کے نمائندے مارٹن ڈٹز من نے کہا ہے کہ جب مہاجرین اپنے آبائی ملکوں میں مقیم اپنے اہل خانہ کے بارے میں فکرمند رہتے ہوں، تو ایسے میں ان کے لئے جرمن معاشرے سے ہم آہنگی زیادہ مشکل ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تارکین کی جرمنی سے بے دخلی آخری وقت میں ٹل گئی، مگر کیوں؟

فیملی دور رہنے کی وجہ سے شادیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں، اور خاندانوں میں اموات ہونے پر بھی مہاجرین مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ آن لائن لیٹر میں دونوں بڑے چرچز نے اس بات پر زور دیا ہےکہ خاندان سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔

اس کے افراد ہی ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں، لہذا جرمن حکومت مہاجرین کے اہلخانہ کے لئے ویزا نظام کو بہتر کرے اور جلد ان کی ری یونین کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

عارضی اسٹیٹس والوں کیلئے مطالبہ

دونوں چرچز نے لیٹر میں مہاجرین کے علاوہ عارضی پناہ کا اسٹیٹس رکھنے والوں کو بھی اپنے اہلخانہ بلانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ مہاجرین اور عارضی پناہ کا درجہ رکھنے والوں کی زندگیوں میں عملی طور پر کوئی فرق نہیں ہوتا۔اس لئے انہیں فیملی کے ساتھ اکٹھا ہونے کی سہولت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں،خط میں کہا گیا ہے کہ فیملی ری یونین میں جو مسائل حائل ہیں، ان میں جرمن سفارتخانوں میں طویل انتظار اور فیملی ری یونین کے لئے دستاویز کے حصول میں مشکلات شامل ہیں، کرونا بحران نے صورتحال مزید خراب کی ہے، واضح رہے کہ جرمنی نے گزشتہ برس صرف 5311 فیملی ری یونین ویزے جاری کئے تھے، جو جرمن حکومت کے مقرر کردہ سالانہ ہدف سے بھی بہت کم ہیں،

Leave A Reply

Your email address will not be published.