چھوٹے یورپی ملک میں تارکین کو ڈیپورٹ کرنے کی تیاری پر تنازعہ ہوگیا

0

برسلز: چھوٹے لیکن خوش حال یورپی ملک میں تارکین کو ڈیپورٹ کرنے کی تیاری پر تنازعہ پیدا ہوگیا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے فیصلہ غیر منصفانہ قرار دے دیا، وزیراعظم نے بھی تارکین کے لئے راستہ نکالنے کی بات کی ہے، لیکن ایک رکاوٹ آرہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق چھوٹے اور دور دراز و چاروں طرف سے سمندر میں گھرے یورپی ملک آئس لینڈ میں بھی کچھ تارکین کسی نہ کسی طرح پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، آئس لینڈ میں براہ راست پہنچنا تو عملی طور پر ناممکن ہے، اس لئے وہاں جانے والے تارکین عام طور پر کسی نہ کسی یورپی ملک کی دستاویز استعمال کرکے جاتے ہیں، تاہم اب آئس لینڈ نے ایسے 300 غیر قانونی تارکین کو ڈیپورٹ کرنے کی تیاری کرلی ہے، ان میں سے بیشتر یونان سے وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے، اس لئے انہیں ڈی پورٹ بھی یونان کرنے کا پروگرام ہے، ان تارکین میں زیادہ تر عراقی اور نائجیرین ہیں۔

تاہم ریڈ کراس سمیت کئی تنظیموں نے ان تارکین کو ڈی پورٹ کرنے کے منصوبے کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ ڈی پورٹ کرنے سے یہ تارکین مشکلات کا شکار ہوجائیں گے، جس پر حکومت نے پہلے ہی ڈی پورٹ کئے جانے والے تارکین کی تعداد کم کرکے 200 کردی ہے، حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر تارکین نے پہلے ہی یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دائر کر رکھی تھیں، اس لئے انہیں واپس وہاں بھیجا جارہا ہے، لیکن ریڈ کراس آئس لینڈ کا کہنا ہے کہ یونان بھیجنے سے ان تارکین کے حقوق محفوظ نہیں رہیں گے، او ر ہیومین رائٹس واچ یونان میں تارکین کی حالت زار پر پہلے ہی رپورٹ جاری کرچکی ہے۔

آئس لینڈ کی خاتون وزیراعظم Katrín Jakobsdóttir ڈی پورٹیشن کا عمل روکنے کے لئے راستہ نکالنے پر راضی ہیں، تاہم ان کی اتحادی جماعت اس میں رکاوٹ ہے، جس سے تعلق رکھنے والےوزیر انصاف Jón Gunnarsson بار بار ڈی پورٹ کرنے کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.