یورپی ملک سے سینکڑوں بچے غائب

0

برلن: یورپی ملک پہنچنے والے سینکڑوں کم عمر تارکین وطن حکام کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں، جس پر ان کی تلاش کا کام جاری ہے، جبکہ این جی اوز نے کم عمر تارکین کی بھلائی کے لئے زیادہ کوششوں پر زور دیا ہے، ان میں سے ایک ہزار کی عمریں 14 سے17 برس کے درمیان ہیں۔

تفصیلات کے مطابق یورپی ملک جرمنی میں پہنچنے والے 1600 کم عمر تارکین حکام کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں، ان میں سے ایک ہزار کی عمریں 14 سے17 برس کے درمیان ہیں، جبکہ باقی اس سےبھی کم عمر ہیں، جرمن اخبار نے فیڈرل کرمنل پولیس آفس (بی کے اے) کے حوالے سے بتایا ہے کہ نظروں سے اوجھل ہوجانے والے کم عمر تارکین کی اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے، جبکہ ان میں مراکش، الجزائر، شام اور صومالیہ کے بچے بھی شامل ہیں، تاہم رپورٹ کے مطابق غائب ہوجانے والے کم عمر تارکین کی تعداد گزشتہ برسوں میں بتدریج کم ہورہی ہے، 2016 میں تارکین وطن کے بحران کے عروج کے دور میں یہ تعداد9 ہزار سے بھی بڑھ گئی تھی، جو 2018 میں کم ہوکر 5334 ہوئی جبکہ 2019 میں لاپتہ تارکین کی تعداد 3192 ریکارڈ کی گئی تھی، اس کمی کی ایک بڑی وجہ جرمنی آنے والے تارکین کی تعداد میں کمی بھی ہے۔

لاپتہ تارکین کہاں گئے؟

لاپتہ کم عمر تارکین کہاں چلے گئے ہیں، اس بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر رجسٹریشن والی جرمن ریاست سے اپنے رشتہ داروں کے پاس دوسری جرمن ریاستوں میں چلے جاتے ہیں۔

اسی طرح کچھ تارکین دوسرے یورپی ملکوں میں اپنے عزیزوں کے پاس ملنے جاتے ہیں، اور اس طرح وہ آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں، دوسری طرف جرمن چلڈرن فنڈ کے صدر تھامس کروگر نے کم عمر تارکین کے تحفظ اور بہبود کے لئے زیادہ کوششوں پر زور دیا ہے، انہوں نے کہا کہ جرمن حکام کا فرض ہے کہ وہ لاپتہ ہوجانے والے کم عمر تارکین کو تلاش کرکے ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں، کرونا بحران کے دوران اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:یورپین عدالت کا کم عمر تارکین کے حوالے سے اہم فیصلہ

خیال رہے کہ چند روز قبل یورپی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں رکن ممالک کو کم عمر تارکین کو ڈیپورٹ کرنے سے روک دیا ہے، عدالت نے حکم دیا ہے کہ وہ 18 برس سے کم عمر تارکین وطن کو کسی دوسرے ملک بھیجنے کا فیصلہ اس وقت تک نہیں  کریں گے، جب تک متعلقہ ملک میں کم عمر تارکین کے لئے مناسب سہولتوں والے ریسیپشن سینٹر کی دستیابی کا یقین نہ ہوجائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.