جرمنی میں مذہب بدلنے والے تارکین کن ملکوں کے ہیں؟

0

برلن: جرمنی میں سیاسی پناہ کے خواہشمند مسلم ممالک کے تارکین کی جانب سے عیسائیت قبول  کرکے چرچ میں پناہ لینے کا معاملہ ایک بار پھر خبروں میں ہے، ایک طرف کچھ حکام اس شبہ کا اظہار کرتے ہیں کہ عیسائیت قبول کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں سے بڑی تعداد جرمنی میں پناہ لینے کے لئے ایسا کرتی ہے۔

تو دوسری جانب ایک جرمن مسلم تنظیم نے بھی ایسے افراد کو چرچ میں پناہ دینے پر سوال اٹھا یا ہے، تفصیلات کے مطابق اگرچہ قانون کے مطابق جرمن پولیس غیرقانونی مقیم غیرملکی کو پکڑنے کے لئے چرچ میں بھی داخل ہوسکتی ہے، لیکن پولیس عمومی طور پر ایسا نہیں کرتی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ ایرانی اور افغان تارکین چرچ میں پناہ لیتے ہیں، اس حوالے سے برلن کا لوتھیرین ٹرینٹی چرچ مشہور ہے، جس کے سربراہ پیسٹر گاٹ فرائیڈ مارٹن ہیں، جو اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے کے دعویدار تارکین کو اپنے چرچ میں پناہ دیتے ہیں، اور عدالتوں میں پناہ کے کیسز کے لئے بھی ان کی پوری مدد کرتے ہیں، اب بھی ان کے چرچ میں بڑی تعداد میں ایسے افغان اور ایرانی تارکین موجود ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ وہ عیسائیت اختیار کرچکے ہیں، اور یہ کہ اگر انہیں واپس ان کے ملکوں میں بھیجا گیا تو وہاں ان کے لئے مذہبی بنیاد پر خطرہ ہوگا۔ پیسٹر مارٹن نے ان افغان اور ایرانی تارکین سے  بات چیت کے لئے فارسی زبان بھی سیکھ لی ہے، اور وہ گزشتہ 15 برسوں میں ان دونوں ملکوں کے ہزاروں افراد کو اپنے چرچ میں پناہ اور جرمنی میں پناہ دلانے کے لئے مدد کرچکے ہیں۔

پیسٹر مارٹن کا کہنا ہے کہ وہ بپتسما کی تقریب سے قبل ان لوگوں کو چیک کرتے ہیں کہ آیا وہ واقعی عیسائی ہوئے ہیں یا نہیں، تاہم بعض جرمن حکام پیسٹر مارٹن سے خوش نہیں ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ چرچ میں جا کر خود کو عیسائی ظاہر کرنے والے تارکین پناہ کے لئے بھی ایسا کرتے ہیں۔

انہوں نے پیسٹر مارٹن کیخلاف قانونی کارروائی بھی شروع کی لیکن پیسٹر مارٹن کا کہنا ہے کہ انہیں کسی کارروائی کا کوئی خوف نہیں، ہمیں جیل بھی بھیج دیا جائے تو یہ عیسائیت اختیار کرنے والوں کے لئے ایران اور افغانستان واپس جانے سے بہتر ہے۔

اسلامی تنظیم کا ردعمل

 جرمنی کی سب سے بڑی مسلم تنظیم ترکش اسلامک یونین کے جنرل سیکریٹری بکر البوگاBekir Alboga  کا کہنا ہے کہ عیسائیت قبول کرنے کا دعوی کرنے والوں کو چرچ میں پناہ دینا مذہبی استحصال کی ایک شکل ہے، کیوں کہ یہ جرمنی میں رہنے کا ایک قابل عمل آپشن سمجھا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ تارکین کے حوالے سے جو سہولت چرچ کو دی گئی ہے، وہ جرمنی میں مساجد کو تو نہیں دی گئی، امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ سے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے میں بائبل پکڑوانا چاہتے ہیں، چرچز کو تارکین کے حوالے سے ساری امداد اور سپورٹ بھی حکومت فراہم کرتی ہے۔ واضح رہے کہ جرمن ایسوسی ایشن آف چرچ کے مطابق 25 مارچ تک 107 کم عمر تارکین سمیت 535 غیرملکی چرچوں میں پناہ گزین تھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.