*پرواز مرگ * “طیارہ حادثے کے بعد دل میں جنم لینے والے احساس و جذبات “

0

*پرواز مرگ *

“طیارے کے حادثے کے بعد دل میں جنم لینے والے احساس و جذبات ”

تحریر: اشہب سعید

لوگ بہت خوش ہیں بلا آخر لاک ڈاؤن میں طویل انتظار کے بعد ایئر لائن کی پروازیں بحال ہوگئی، البتہ یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ٹکٹ ملے گا بھی یا نہیں، کیوں کہ پروازوں کی تعداد بہت کم تھی اور کورونا کی وجہ سے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر ہر پرواز میں تقریبا آدھی نشستںیں خالی جارہی تھیں، لوگ ٹکٹ کے حصول کے لئے سو طرح کے جتن کر رہے تھے، طرح طرح کے تعلقات اور سفارشیں استعمال کی جارہی تھیں، جو ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔

ٹکٹ یقینی ہوتے ہی اپنے اپنے گھروں میں فون کر کے خوش خبری سنا دی،جہاں اس خبر نے عید سے پہلے عید کا سماں باندھ دیا، مزہ تو اب آئے گا، واقعی اب لگ رہا ہے کہ عید آرہی ہے، رونق دوبالا ہوگئی ۔چلو باقی دو روزوں میں تو افطار ساتھ ہوگی جیسے جملوں سے گھر گونج نے لگے ۔

ادھر دوسری جانب اب خریداری زوروں پر تھی، شکر ہے لاہور میں کراچی جیسی سختی نہیں تھی یہاں بازار رات گئے تک کھلے رہے گھر فون کر کر کے پوچھا جارہا ہے اور کیا منگوانا ہے۔

اس بار گھر والوں کی فرمائش جیب پہ بھاری نہیں پڑھ رہی ہے بلکہ دل کو خوشی و مسرت سے بھر رہی ہے، اب ساری تیاریاں مکمل ہیں گھر فون کرکے اطلاع دے دی جاتی ہے ساتھ میں فرمائش کی یاد دھانی بھی کردی جاتی ہے کہ آلو اور پالک کے پکوڑے ضرور ہوں پودینے اور املی کی چٹنی کے ساتھ افطار میں کھانے جو مزہ آتا ہے اس کا زائقہ بھلائے نہیں بھولتا، اور گھر سے ہنستی آوازوں میں یقین دہانی کرائی جاتی ہے آپ آئے تو سہی اور پھر دیکھئے گا انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے اور کراچی سے لاہور تک انبساط و مسرت کے جھونکے ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔

دوست کہتے ہیں یار مبارک ہو گھر والوں میں عید منانے جارہے ہو، ہمیں بھول نہ جانا ادھر ہنسی میں جواب ملتا ہے یار تم بھی کوئی بھولنے کی شے ہو لیکن تم سے بھی زیادہ میں ایک اور چیز کو مس کروں گا۔

دوست حیرت سے پوچھتا ہے وہ کیا تو جواب ملتا ہے لاہور کی بارش۔

یار سچ کہوں !کراچی میں تو اب بارش کو ترستے ہیں ،چل اؤئے !گھر جا اور خوشی و مسرت کی برسات میں ڈبکیاں لگا اور زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ فضاء میں گونج اٹھتا ہے
ایئر پورٹ پر روایتی گہماگہمی ہے، ٹکٹ کے حصول میں سرگرداں کئی لوگ رشک سے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں جو سامان سے لادے پھندے جہاز کی جانب رواں دواں ہیں۔

پائلٹ کے روایتی خیر مقدم کے اعلانات اور عملے کا مظاہرہ کرتی حفاظتی مشق کو شاید کوئی بھی توجہ سے دیکھ اور سن نہیں رہا اب جہاز نے اڑان بھرنا شروع کی اور فضاء میں بلند ہوگیا، مسافر اپنوں سے ملاقات کے آنے والے خوش کن لمحات میں گم ہوگئے تھوڑی دیر بعد اچانک پرواز نا ہموار ہوگئی اور مسافروں کے چہروں سے پرشانی پھوٹ نے لگی، دعاؤں کا ورد شروع ہوگیا۔

پائلٹ نے مائک پر تسلی دی اور کہا بس کراچی آیا ہی چاہتا ہے لیکن ہنگامی لینڈنگ ہوگی آپ لوگ حفاظتی بند مضبوطی سے باندھ لیں اور بتائے گئی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور پرسکون رہیں۔

مسافروں کو کھڑکیوں سے نیچے کراچی کی زمین دوڑتے بھاگتے نظر آرہی تھی دعاؤں کا ورد جاری تھا۔

پیاروں کی شکلیں نظروں کے سامنے گھوم رہی تھیں، مستقبل میں اللہ‎ میاں کو راضی کرنے کے پروگرام ذہنوں میں دوڑ رہے تھے۔

احساس ہورہا تھا ہماری زندگیوں کی منصوبہ بندی میں اللہ‎ رب العزت اس طرح موجود نہیں تھا جیسے کہ موجود ہونے کا حق تھا،اپنی اپنی زندگیوں میں ہر روز نت نئی مصروفیات میں الجھ کر اپنا جائزہ لینا کا موقع ہی نہیں مل پا رہا ہے دائمی زندگی کے لئے زاد سفر جمع کرنے کے محض ارادے اور نیک خواہشات ہی تھے اور ساری جدو جہد فانی زندگی کی تعیشات کے حصول میں میں صرف ہوری تھی۔

احساں زیاں کا یہ عمل پورے جسم و جاں پر حاوی تھا ۔اطاعت رب کی خواہش اب ہر رشتہ اور ہر تعلق پر حاوی ہوگئی تھی رہ رہ کر احساس ہورہا تھا کہ کس کس طرح بندہ خدا بندہ زمانہ بن گیا تھا اور بتان وہم و گماں کے پیچھے بھاگ رہا تھا مگر اب شاید بندوں کے لئے وقت کی طنابیں کھنچ دی گئی تھی اب تو بس زبان پر کلمہ توحید اور دل میں کریم رب کی بے پایاں رحمت،بخشش کا اور نبی مہربان ﷺ کی محبت اور چاہت کا احساس جاگزیں تھا ۔

آخر ایک دھماکہ تکلیف اور پھر گہری خاموشی اور ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا، بے انتہا غم و اندوہ کی کفیت، آنسوں کی برسات، دنیا مافیہا سے بے خبری، رنج، یاسیت ،اداسی، خاموشی اور بلا آخر صبر یہ سب مرحلے اپنے اپنے وقت اور مقام پر آئیں گے مگر ایک بے قراری ہمیشہ حصار ذات بن جائے گی زندگی کی رونقوں میں ایک یاد ہمیشہ اپنی کمی محسوس کراتی رہے گی۔

جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کے لئے بھی گھڑیال منادی دیتا رہتا ہے کہ عمر کی نقدی کو سوچ سمجھ کر دینے والے کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا ہی سب سے بڑی دانش اور عقل مندی ہے جب گلہ خالی ہوئے گا تو کوئی ادھار نہیں ڈالے گا۔

کیا معلوم نقارہ کب بج جائے اور کوچ کا حکم آجائے، نبی مہرباں ﷺ کا ایک ارشاد کا مفہوم ہے عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد آنے والی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز (بے وقوف) وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگادے اور اللہ سے آرزوئیں رکھے۔

اللہ‎ کریم جو گزر گئے ہیں ان کے ساتھ احسان اور رحم و کرم کا معاملہ فرمائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کو ہمیشگی کی زندگی کے زاد سفر آگے بیھج نے کی توفیق عطا فرمائے آمین
“من کل فانی بس رہے نام اللہ‎ کا*

# پرواز مرگ
# اشہب سعید

Leave A Reply

Your email address will not be published.