تارکین وطن کا چرچ میں دھرنا

0

برسلز: یورپی ملک میں تارکین نے چرچ میں داخل ہو کر ڈیرہ ڈال دیا، بغیر کاغذات کے ملک میں موجود تارکین وطن نے حکومت کے سامنے مطالبات رکھ دیے، تارکین وطن کیلئے کام کرنے والی این جی او نے مزید تارکین کی جانب سے دیگر گرجا گھروں میں بھی احتجاجاً دھرنے دینے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق برسوں سے بغیر  کاغذ کے رہنے والے 150 سے زائد تارکین وطن نے یورپی ملک بیلجئیم کے دارالحکومت برسلز میں ایک بڑے چرچ میں داخل ہو کر ڈیرہ ڈال دیا ہے، برسلز کے مرکز میں واقع Beguinage چرچ میں دھرنا دینے والوں میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں، تارکین وطن نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کرے، اس کے بغیر وہ چرچ کا قبضہ نہیں چھوڑیں گے، ان کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصہ سے بیلجئیم میں مقیم ہیں، لیکن انہیں رہائش کی قانونی دستاویزات نہیں دی جارہیں، انہیں قانونی  طور پر رہنے کی اجازت اور پرمٹ دئیے جائیں، مقامی اخبار کے مطابق    تارکین وطن اتوار کو چرچ میں داخل ہوئے تھے، اور انہوں نے وہیں ڈیرہ ڈال لیا ہے، وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے، اور بستر وغیر ہ بھی ساتھ لائے تھے، جنہیں اب وہ چرچ کے فرش پر بچھا کر سورہے ہیں۔

بیلجئیم میں تارکین وطن کے حقوق کے لئے کام کرنے والی این جی او Ciré کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کا احتجاج پھیل رہا ہے، اور قانونی دستاویز سے محروم تارکین وطن کے مزید کئی گروپ بھی گرجا گھروں میں داخل ہوکر دھرنا دینے کا پروگرام بنارہے ہیں۔

این جی او  کی رہنما لارنس وین پیشین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں یہ کئی بار ہوچکا ہے کہ تارکین قانونی اسٹیٹس حاصل کرنے کے لئے گرجا گھروں میں پناہ لے لیتے ہیں، بیلجئیم کے پادری بھی ان سے بہت تعاون کرتے ہیں، آخری بار گیارہ برس قبل 2009 میں 200 تارکین نے ایسا احتجاج کیا تھا، اور انہیں حکومت نے  قانونی دستاویز جاری کردی تھیں، این جی او کے عہدیدار نے کہا کہ اس کے بعد طویل عرصہ ہوگیا ہے، حکومت نے قانونی اسٹیٹس سے محروم تارکین وطن کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا، جس سے ان میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔

تارکین وطن کا موقف

چرچ میں دھرنا دینے والے تارکین وطن کا مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہنا ہے کہ وہ چرچ میں اس لئے آئے ہیں، کیوں کہ ان کے لئے اور کہیں رہنے کی جگہ موجود نہیں ہے، ان کا احتجاج سیاسی اور اپنا  قانونی حق حاصل کرنے کے لئے ہے، وہ چاہتے ہیں کہ حکومت انہیں قانونی اسٹیٹس دے، تاکہ وہ روزگار، صحت اور تعلیم سمیت دیگر  سہولتیں حاصل کرنے کے لئے اہل ہوسکیں، ایک تارک وطن کا کہنا تھا کہ وہ اس زندگی سے تنگ آگئے ہیں، انہیں قانونی شناخت ملنی چاہئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.