پاکستانی تارک کا یورپی پارلیمان کو کھلا خط، دل کھول کر رکھ دیا

0

برسلز: بوسنیا میں پھنسے ہوئے 8 ہزار سے زائد تارکین وطن میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد شامل ہے، اور اب ایک پاکستانی تارک وطن نے تمام تارکین کی طرف سے یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کو کھلا خط لکھا ہے، جس میں ایک طرف تارکین کی صورتحال کی منظر کشی کی ہے۔

دوسری جانب یورپی ارکان کو اہم تجاویز اور مطالبات بھی پیش کردئیے ہیں، سفیان علی بوسنیا کے لیپا کیمپ میں تین ماہ سے مقیم ہیں، ان کا یہ خط تارکین کیلئے کام کرنے والی ایک این جی اوNo Name Kitchen سامنے لائی ہے، تارکین کی خبریں دینے والی ویب سائٹ انفو مائیگرینٹ کے مطابق سفیان علی نے کھلا خط لکھنے کا فیصلہ  یورپی پارلیمنٹ کی رکن الزینڈرا موریتی کے جنوری میں کیمپ کے دورے کے بعد کیا، جس میں انہوں نے سفیان علی سے بھی ملاقات کی تھی۔ خط میں سفیان نے یورپی ارکان سے مدد طلب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم مہاجر ہیں، ہمیں یہاں کوئی حقوق حاصل نہیں، ہماری یہاں کوئی عزت نہیں، کوئی امید نہیں، ہم یہاں پڑے پڑے بیمار ہوجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:بوسنیا سے اٹلی کا سفر کتنے دنوں یا گھنٹوں کا ہے؟، پاکستانی تارکین کیا کہتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ہم نوجوان اور فٹ ہیں، ہم کام کرسکتے ہیں، ہمارا وقار بحال کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہمیں کام کرنے کی اجازت دی جائے، تاکہ ہم ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنے لئے کھانا خرید سکیں۔ اس کے ساتھ سفیان علی نے یورپی ارکان سے کہا ہے کہ بوسنیا سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں جانے کے لئے ہمارے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانونی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے تارکین غیر قانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہیں، یہاں پھنسے ہوئے 8 ہزار سے زائد تارکین ہر وقت اسی سوچ میں رہتے ہیں کہ وہ کسی طرح چھپ کر پہلے کروشیا، وہاں سے سلوینیا اور پھر اٹلی پہنچ جائیں، کیوں کہ اٹلی پہنچ کر ہی آپ واپس بوسنیا دھکیلے جانے کے خطرے سے کسی حد تک آزاد ہوتے ہیں، ورنہ باقی دو یورپی ملک  واپس بوسنیا بھیج دیتے ہیں۔

کیمپوں کی حالت

خط میں سفیان نے یورپی ارکان کی توجہ بوسنیا میں مہاجر کیمپوں کی خراب صورتحال کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے کیمپ کے ایک ہزار مہاجرین کیلئے صرف ایک درجن ٹوائلٹس ہیں، جہاں پانی بھی اکثر ختم ہوجاتا ہے، نہانے کے لئے صرف 5 شاور ہیں، اور گرم پانی تو خواب ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.