اسلام آباد: (تصدق چوہدری) مریم نواز کے شوہر کیخلاف مزار قائد کی بے حرمتی کے مقدمے اورگرفتاری کے بعد چھٹی کی درخواستوں کے ذریعہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے سندھ پولیس کےافسران کے پیچھے کون تھا،اس حوالے سے معاملات کھلنے لگے ہیں، اور ملکی سلامتی کے اداروں کو اس حوالےسے اہم شواہد مل گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اس کے کھرے پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف جارہے ہیں، کیپٹن صفدر اور مریم کے خلاف پہلے سندھ پولیس نے آئی جی مشتاق مہر کی ہدایت پر مزار قائد کی بے حرمتی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا، آئی جی قانون کے بجائے اپنے سیاسی باس وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور پی پی پی قیادت کو خوش کرنا چاہتے تھے، جنہوں نے وفاق سے اصرار کرکے انہیں یہ عہدہ دلایا تھا، تاہم بعد ازاں سیکورٹی ادارے کی مداخلت کے بعد جب مقدمہ قائم اور صفدر گرفتار ہوگیا، تو اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے چھٹی کی درخواستوں کا نیا ڈرامہ چند افسران نے کیا، جن کی قیادت بھی آئی جی مشتاق مہر نے کی، جبکہ پیچھے سے ڈوریاں سندھ حکومت کی اہم شخصیت ہلارہی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بڑا ثبوت چھٹی کی درخواستوں کا لیٹر ہے، جو کسی ایک جگہ ڈرافٹ کیا گیا، اور پھر اسے اپنی مرضی کے افسران کو بھیج کر کہا گیا کہ وہ اس پر دستخط کر کے میڈیا میں شئیر کرتے جائیں، تاکہ ریاستی اداروں پر دباؤ بنایا جاسکے، سب افسران حتیٰ کہ ایس ایچ اوز کو بھی یہی مسودہ بھیجا گیا، اب ان میں سے کچھ افسران نے سیکورٹی اداروں سے رابطہ کرکے ان شخصیات اور پولیس افسران کے نام بھی بتادئیے ہیں، جنہوں نے ان سے رابطہ کرکے یا دباؤ ڈال کر چھٹی کی درخواستوں پر دستخط کرائے تھے۔
افسران کیخلاف تحقیقات
اس سارے معاملے میں سیاسی آقاؤں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے پولیس افسران کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن میں ان کے رابطے، بیرون ملک سفر کا ریکارڈ، ان کے بچوں کا تعلیمی ڈیٹا اور جائیدادیں و اکاؤنٹس شامل ہیں، ابتدائی طور پر ہی کئی افسران کے مغربی ممالک میں اثاثوں اور بچوں کے وہاں کے مہنگے اداروں میں زیر تعلیم ہونے کے ثبوت سامنے آگئے ہیں، جس کے بعد اس پہلو کو بھی دیکھا جارہا ہے کہ یہ افسران کہیں بیرونی طاقتوں کے پے رول پر تو کام نہیں کررہے، کیوں کہ ان کی تنخواہیں دو سے تین لاکھ کے درمیان ہیں، جبکہ ان کے بچوں کی فیسیں ہی ان کی تنخواہوں سے زیادہ ہیں، ایک رینکر افسر کی تو امریکہ میں جائیداد اور دبئی میں کاروبار سامنے آگیا ہے۔
ذرائع کے مطابق چھٹی کے نام پر ریاستی اداروں کو چیلنج کرنے والے پی ایس پی افسران کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ انہیں اب مرحلہ وار سندھ سے بلوچستان اور کے پی ٹرانسفر کردیا جائے گا، جبکہ کچھ کو او ایس ڈی بنادیا جائے گا، اس کے ساتھ ان کے سیاسی روابط، اثاثوں اور بیرون ملک سفر اور سرگرمیوں کا مکمل ڈیٹا تیار کیا جائے گا، جس کی بنیاد پر نیب سمیت وفاقی ادارے ان کےخلاف مزید کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ ان افسران کی ڈوریاں سندھ حکومت کی طرف سے ہلائی جارہی تھیں، اور انہیں ریاستی اداروں کے خلاف کھڑا ہونے پر نوازنے کا بھی کہا گیا، لیکن ان افسران نے بظاہر اسے اپنی فورس کے وقار کا معاملہ بتایا، حالانکہ یہی افسران اس وقت بھی موجود تھے، جب وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے چند ماہ قبل سابق آئی جی کلیم امام کو اسمبلی میں کھڑے ہوکر دھمکیاں دی تھیں، بعد ازاں انہیں تبدیل بھی کروادیا، اسی طرح ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کو سندھ کے وزیر امتیاز شیخ کی مجرمانہ سرگرمیاں سامنے لانے پر سندھ بدر کردیا گیا، لیکن ان میں سے کسی پولیس افسر کا اس وقت ’’ضمیر ‘‘ نہ جاگا، اس کا صاف مطلب ہے کہ اس بار بھی معاملہ ضمیر جاگنے کا نہیں، بلکہ کچھ اور تھا۔