یونان کے مہاجر کیمپ کی تباہی، کون سا یورپی ملک مہاجرین کو لینے پر تیار

0

ایتھنز: یونان کے جزیرہ لیسبوس میں قائم مہاجر کیمپ میں خوفناک آتشزدگی سے پورا کیمپ جل گیا،وہاں مقیم 13 ہزار سے زائد تارکین وطن پناہ گاہوں سےمحروم ہوگئے ہیں اور کھلےآسمان تلے پڑے ہیں،حکومت نے آگ سےپیدا صورتحال کا ذمہ دار تارکین وطن کو قرار دیا ہے، یورپی ملک نے تارکین کو لینے کی پیشکش کردی۔

تفصیلات کے مطابق یونان کے جزیرہ لیس بوس میں قائم  تارکین وطن کے کیمپ میں خوفناک آتشزدگی ہوئی ہے، جس سے پورا کیمپ راکھ کا ڈھیر بن گیا ہے، جس وقت آگ لگی وہاں تیز ہوا چل رہی تھی، جس سے آگ کا پھیلاؤ تیز ہوگیا، فائربریگیڈ کی تمام تر کوششوں کے باوجود کیمپ کا بیشتر حصہ جل گیا ہے، عارضی پناہ گاہوں سے محروم ہونے کے بعد کیمپ میں مقیم 13 ہزار سے زائد  مہاجرین کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔

مہاجرکیمپ میں 3 ہزار افراد کی گنجائش ہے، لیکن یہاں تین گنا سے زائد تارکین وطن کو رکھا گیا تھا، جس پر یونان کو اقوام متحدہ سمیت مختلف اداروں کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے، فائربریگیڈ چیف نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ مختصر وقفے سے آگ کیمپ کے 3 مختلف حصوں میں لگی، ان کا کہنا تھا کہ وہاں موجود تارکین وطن نے آگ بجھانے میں رکاوٹ ڈالی اور احتجاج شروع کردیا، یونان کے وزیر امیگریشن کا کہنا ہے کہ آگ تارکین وطن کی وجہ سےلگی، انہوں نے بتایا کہ کیمپ میں موجود 35 مہاجرین کرونا میں مبتلا نکلے تھے، جس پر انہیں قرنطینہ منتقل کیا جارہا تھا، تاہم ان تارکین نے مزاحمت کی۔

واضح رہے کہ موریہ کیمپ میں گزشتہ ہفتے صومالی  مہاجر میں کرونا پازیٹو آیا تھا، جس سے متاثرہ مزید 35 کیس سامنے آچکے ہیں، یونانی وزیر کا کہنا تھا کہ یہیں سے گڑ بڑ شروع ہوئی، اور بعد میں آگ بھڑک اٹھی، تاہم انہوں نے تارکین کو آگ لگنے کا براہ راست ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ البتہ مقامی ڈپٹی مئیر مچل  فراٹنزکوس نے آتشزدگی کو سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ آگ لگنے کے وقت تارکین وطن کے خیمے خالی تھے، انہوں نے کہا کہ آگ لگانے والوں نے تیز ہوا سے فائدہ اٹھایا۔

دوسری طرف کچھ تارکین وطن نے برطانوی خبررساں ادارےسےگفتگو میں اس بات کی تو تصدیق کی کہ آگ لگنے کا وقت تقریبا ً  وہی ہے، جب کرونا متاثرین کو قرنطینہ کیلئے لے جانے کی یونانی اہلکاروں نے کوشش کی،تاہم ان میں سے کچھ نےآگ کا ذمہ دار انتہاپسند یونانی شہریوں کو قراردیا، اورکہاکہ ان کے پاس تصاویر موجود ہیں،جس میں سخت گیر یونانی شہری  تیل کے کنستر  سے آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں ۔

آگ لگنے کے بعد کیا ہوا؟

برطانوی میڈیا نے عینی شاہدین کےحوالے سے بتایا ہے کہ آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے  پورے کیمپ کو لپیٹ میں لے لیا، کیمپ میں مقیم تارکین جانیں بچانے کے لئے وہاں سے بھاگنے لگے، تاہم پولیس نے کیمپ سے نکلنے والی سڑکیں بند کردی تھیں،تاکہ  تارکین  وطن قریبی   قصبوں اور دیہات میں نہ داخل ہوسکیں ۔ اس کے ساتھی جزیرے پر آباد  یونانی شہریوں نے بھی    آگ سے  بچ کر آنے والے تارکین وطن کو اپنی آبادیوں کی طرف آنے  سے روک دیا، اور  طاقت کے ذریعہ انہیں واپس دھکیل دیا۔

این جی اوز کا موقف

جزیرہ پر تارکین وطن کو طبی سہولتوں کی فراہمی  میں  مصروف  عالمی  تنظیم ایم ایس ایف  کے  پروجیکٹ ڈائریکٹر مارکو سینڈرون   نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ  یہ کہنا مشکل ہے کہ آگ کیسے لگی ، کیوں کہ  کیمپ میں  احتجاج کے ساتھ کئی مقامات  پر آگ  بھڑکتی نظر آئی ، انہوں  نے جزیرہ پر تارکین وطن کی  خراب صورتحال کو ٹائم بم سے  تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ  بالاخر یہ بم پھٹ گیا ، یہاں تارکین وطن کو غیر انسانی ماحول میں  برسوں سے رکھا گیا تھا،

یورپی یونین مدد کو تیار

یورپی یونین کی داخلی امور سے متعلق کمشنر یالوو جانسن کا کہنا ہےکہ یونین موریہ کیمپ سے 400 ایسےکم عمر تارکین وطن کی یونان کی مرکزی سرزمین پر منتقلی کیلئے فنڈز فراہم کرے گی، جو تنہا ہیں، یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وون لیان نے کہا ہےکہ متاثرین کوسرچھپانے کی جگہ فراہم کرنا ہماری ترجیح ہے،جرمن وزیرخارجہ  نے  اس واقعہ کو انسانی المیہ سے تعبیرکرتے ہوئےکہاکہ وہ ان تارکین وطن کو  یورپی ممالک میں قسیم کرنا چاہئے،اس کے ساتھ ہی  جرمنی کی شمالی ریاست North Rhine-Westphalia نے ایک ہزار تارکین وطن کو یونان سے لینے کی پیشکش کردی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.