یورپی دباؤ اور مصر کی دھمکیاں مسترد، ترکی نے لیبیا میں مزید فوجی امداد بھیج دی

1

استنبول: ترکی نے  فرانس سمیت یورپی ممالک کے دباؤ اور روس و عرب امارات کی پشت پناہی پر لیبیا میں فوج داخل کرنے کی  مصری دھمکی کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے اور لیبیا کی قانونی حکومت کی مدد کیلئے   مزید  فوجی امداد اور جنگجو  وہاں بھیج دئیے ہیں ۔

لیبیا میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ   وزیراعظم فیاض السراج کی حکومت کیخلاف  باغی جنرل حقتر نے غیر ملکی طاقتوں کی ایما پر مسلح بغاوت کر رکھی ہے، روس، فرانس، یواے ای اور مصر کے تعاون سے حقتر کی  ملیشیا دارالحکومت طرابلس تک پہنچ گئی تھی، تاہم ترکی کی جانب سے لیبیا کی حکومت کیلئے فوجی کمک ارسال کرنے کے بعد صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی ہے، اور ترکی کی بالخصوص ڈرون  فورس  نے حقتر کو کئی سو کلومیٹر پسپا کردیا۔

اب  لیبیا کی فوج ترک ڈرونز اور فوجی مشیروں کی مدد سے  یورپ کے قریب بحیرہ روم پر واقع اہم شہر سرت کا محاصرہ  کرنے کے قریب ہے، جبکہ جفرا کا اہم فضائی اڈا بھی اب لیبیا کی فوج  کے نشانے پر ہے۔

ایسے میں دو روز قبل مصری آمر جنرل سیسی نے سرت اور جفرا کو سرخ لائن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ لیبیا کی فوج نے ترک سرکردگی میں وہاں حملہ کیا تو مصر اپنی فوج لیبیا میں داخل کردے گا، ان کے اس اعلان کو روس ،فرانس اور یواے ای کی حمایت حاصل تھی۔

سعودی عرب نے بھی مصر کے حق میں بیان دیا تھا، تاہم ترکی نے یورپی ممالک اور روس کے دباؤ اور مصر کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے لیبیائی فوج کی امداد میں اضافہ کردیا ہے، اور جنگ بندی کا امکان مسترد کردیا ہے۔

عرب اور یورپی ذرائع کے مطابق ترکی نے شام میں اپنے حامی جنگجووں کو ہزاروں کی تعداد میں لیبیا پہنچانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، جس کے نتیجے میں جنرل حقتر کی پوزیشن مزید کمزور ہوتی جائے گی، اس کے علاوہ  فوجی سامان کی نئی کھیپ بھی لیبیا  بھیجی جارہی ہے۔

دوسری جانب یورپی یونین نے لیبیا میں ترکی کی بڑھتی فوجی مداخلت پر پھر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ترکی طاقت کے ذریعہ مسائل حل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اور ہزاروں جنگجو لیبیا بھیجے جارہے ہیں۔

یورپی یونین  کے سلامتی امور کے سربراہ جوزف بوریل نے ترکی  سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لیبیا میں جنگ بندی میں رکاوٹ نہ بنے اور مذاکرات بحال کئے جائیں۔

1 Comment
  1. Tasadduq says

    Good

Leave A Reply

Your email address will not be published.