بوسنیا میں پھنسے ہزاروں پاکستانی کس حال میں ہیں

0

بوسنیا: خوشحال یورپی ممالک میں جانے کی امید لئے بوسنیا میں اس وقت 8 ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن موجود ہیں،جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے، ان میں سے متعدد  سرحد پار کرکے کروشیا داخل ہونے کی ناکام کوششیں کرچکے ہیں،جس میں انہوں نے اپنا سب کچھ گنوادیا، لیکن اس کے باوجود وہ مزید چانس لینے پر مصر ہیں۔

جرمن ادارے ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے رپورٹ دی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ بوسنیا میں اس وقت 8 ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن  پھنسے ہوئے ہیں، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے، ان میں سے بیشتر کروشيا اور يورپی يونين کی سرحد کے پاس بوسنيا کے شہر بيخاج اور اس کے نواح ميں مقیم ہيں۔ مہاجر کيمپوں ميں جگہ نہ ہونے کے باعث ان ميں سے دو سے تين ہزار مہاجرين جنگلات ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔ سرحدی شہر ویلیکا کلادوشا ميں ’’ميرال‘ ‘ نامی کيمپ کا احوال  جرمن ادارے نے نشر کیا ہے، جس میں دکھایا گیا ہےکہ تارکین وطن اپنا وقت کس طرح گزار رہے ہیں، ان کی مصروفیات میں والی بال کھیلنے سے لے کر انڈور گیمز سب کچھ شامل ہے.

پاکستانیوں کی گفتگو

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ مہاجرین خوراک کی قلت کا شکار ہیں جبکہ حفظان صحت کی صورتحال بھی اچھی نہیں، لیکن اس کے باوجود تارکین کہتے ہیں کہ وہ اپنی منزل کی طرف جانے کا انتظار کریں گے، ایک پاکستانی شہری اکرم نے بتایا کہ وہ جرمنی جانا چاہتا ہے، وہ اپنے اور اہلخانہ کے لئے اچھی زندگی کا خواہش مند ہے، پاکستان میں تو اس کے پاس ایسے کوئی مواقع نہیں ہیں، اس لئے وہ آگے جانا چاہتا ہے، ایک دوسرے پاکستانی ذوالقرنین نے بتایا کہ وہ کئی بار کروشیا کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرچکا ہے، کروشیا کی پولیس نے ان پر تشدد کیا، اور ان سے فون اور رقم چھین لی۔

علاقے میں بوسنیا حکومت کے عہدیدار زمین کلجاجی بھی کروشیائی اہلکاروں کی طرف سے تشدد کی شکایات کی تصدیق کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مہاجرین ہمیں بتاتے ہیں کہ کروشیا نے انہیں واپس بھیجنے سے قبل تشدد کیا، ان سے رقم اور فون چھین لئے، ہمارے پاس کئی بار تارکین وطن کو بغیر کپڑوں کے واپس بھیجا گیا، کیمپوںمیں گنجائش سے زیادہ افراد موجود ہونے سے بہت سے تارکین کیمپوں کے باہر جنگل میں رہنے پر مجبور ہیں۔

دوسری طرف عالمی ادارہ برائے مہاجرین آئی او ایم  کے منیجر مائٹ سلکوکی اس بات پر تشویش کا شکار نظر آتے ہیں کہ سردیاں سر پر کھڑی ہیں، اور مہاجرین کے لئے اب تک مناسب انتظامات نہیں ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہاں تو کھانے پینے کا بھی معقول انتظام نہیں، پھر یہاں ایسے تارکین وطن بھی ہیں، جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

نفسیاتی ماہر اور ٹراما سینٹر کی انچارج ملیکا زیلوچ نے ان کے خدشات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ تارکین وطن تلخ تجربات سے گزر کر بوسنیا تک پہنچے ہیں، کچھ کو آبائی ممالک میں خطرات کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی، ایسے میں یہاں بھی کیمپ گنجائش سے زیادہ بھرا ہوا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.