یورپی ملک پر چالاکی کا الزام، قانونی تارکین پر جرمنی نے اہم فیصلہ کرلیا
برلن: تیسری دنیا کے غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن یورپی ممالک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہاں پہنچنے کے بعد ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یورپ کے بھی زیادہ خوشحال اور سہولتوں والے ملکوں میں جا کر بسیں، ان میں جرمنی اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔
تاہم اب جرمنی نے ایک یورپی ملک سے آنے والے قانونی تارکین کے بارے میں اہم فیصلہ کرلیا ہے، حکام کا کہنا ہے کہ یورپی ملکوں میں جن تارکین وطن کو سیاسی پناہ مل جاتی ہے، یورپی یونین کے قواعد کےمطابق انہیں رکن ممالک میں قانونی طور پر سفر کی اجازت ہوتی ہے، لیکن وہ دوسرے یورپی ملک میں 3 ماہ سے زائد قیام نہیں کرسکتے، تاہم تارکین وطن سفر کی قانونی سہولت کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں، بالخصوص یونان میں پناہ کے کیس منظور ہونے کے بعد تارکین وطن ان دستاویز پر جرمنی کا رخ کرتے ہیں، اور یہاں دوسری بار پناہ کی درخواست دائر کردیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:یورپی ملک نے تارکین کے پرمٹ منسوخ کرکے واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا
صرف گزشتہ دو ماہ کے دوران یونان میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والے 2 ہزار سے زائد تارکین جرمنی پہنچ کر یہاں بھی پناہ کا کیس فائل کرچکے ہیں، اور ان کا موقف ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی یورپی ملک میں پناہ کے حقدار ٹھہر چکے ہیں، اس لئے انہیں جرمنی میں بھی کاغذات دئیے جائیں۔ تاہم اب جرمن حکام نے ایسی درخواستوں پر کام روک دیا ہے، جرمن اخبار کے مطابق ایسے تارکین جو پہلے یونان میں پناہ حاصل کرچکے ہیں، ان کی درخواستوں پر کارروائی روکی گئی ہے۔
جرمن مائیگریشن آفس کے مطابق گزشتہ برس بھی ایسے 7 ہزار 100 تارکین نے جرمنی میں پناہ کی درخواست دی تھی، جن کے کیس پہلے سے یونان میں منظور ہوچکے تھے، اس حوالے سے جرمن پارلیمان کی داخلہ کمیٹی کے رکن الیگزینڈر تھروم نے تو یونان کی جانب سے فاول پلے کا بھی خدشہ ظاہر کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے یونان نے یہ حکمت عملی بنالی ہے کہ تارکین کی پناہ کی درخواستیں منظور کی جاتی رہیں، اور انہیں سہولت کوئی نہ دی جائے، تاکہ وہ کاغذات ملنے کے بعد دوسرے یورپی ملکوں کا رخ کرلیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سلسلے کو روکنا ہوگا، حکومت یونان سے بات کرے کہ وہ جنہیں پناہ دیتا ہے، انہیں سہولتیں بھی دے، جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہمیں ایسے تارکین کو ویزا فری سفر کی سہولت ختم کردینی چاہئے۔