بیلجیئم میں تارک وطن بچی کے کیس کا فیصلہ آگیا
برسلز: بیلجیئم کی عدالت نے تارک وطن خاندان کی معصوم بچی کی ہلاکت کے مشہور کیس کا فیصلہ سنادیا ہے، پولیس اہلکار کے ساتھ تارکین وطن کو لانے والے غیر ملکی ڈرائیور کو بھی سزا سنادی گئی ہے، عدالت نے پولیس افسر کو واقعہ میں نادانستہ ملوث پایا ہے۔
تفصیلات کے مطابق مئی 2018 میں بیلجیئم میں پولیس نے ایک وین پر فائرنگ کردی تھی، جو تارکین وطن کو برطانیہ لے جانے کی کوشش کررہی تھی، فائرنگ کے نتیجے میں وین میں سوار کرد عراقی خاندان کی 2 سالہ معصوم بچی موادا نشانہ بن گئی تھی، جس پر اس واقعہ کی یورپ میں بہت مذمت کی گئی تھی، فائرنگ کرنے والے پولیس افسر (Victor-Manuel Jacinto Goncalves) وکٹر مینول جیسنٹو گونکلیوس کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا جارہا تھا، اب عدالت نے پولیس اہلکار کو ایک برس قید کی سزا سنادی ہے، تاہم یہ قید معطل کی سزا ہے، جبکہ کرد بچی اور اس کے خاندان کو لے جانے والے ڈرائیور کو 4 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
عدالت نے پولیس افسر کو بچی کی ہلاکت میں نادانستہ ملوث پایا ہے، اور پولیس افسر کا یہ موقف قبول کیا ہے کہ وہ گاڑی کے ٹائر پر فائر کرنا چاہتا تھا، تاکہ اسے روک سکے، لیکن چوں کہ تارک وطن خاندان کو لے کر جانے والا ڈرائیور گاڑی خطرناک انداز میں بھگا کر فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا، اس لئے غلطی سے گولی بچی کو جا لگی۔ پولیس افسر نے عدالت میں کہا کہ اگر اسے علم ہوتا کہ گاڑی میں تارکین وطن سوار ہیں، تو وہ گولی نہ چلاتا۔
پولیس اہلکار نے کہا کہ وہ خود بھی اس واقعہ سے ٹوٹ گیا ہے، اور اسے بہت افسوس و شرمندگی ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بچی کی جان چلی گئی، عدالت میں پہلے اسے 5 برس تک سزا متوقع تھی، لیکن اس کے موقف کو قبول کرکے اسے ایک برس کی معطل سزا سنائی گئی ہے، ادھر بچی کے والدین جنہیں اس واقعہ کے بعد بیلجئیم میں پناہ دے دی گئی تھی۔ انہوں نے عدالتی فیصلہ پر ردعمل میں کہا ہے کہ کوئی فیصلہ ان کے غم کا مداوا نہیں کرسکتا، لیکن انہیں امید ہے کہ یہ فیصلہ دوسروں کے لئے مثال ثابت ہوگا۔
خیال رہے کہ یورپی ممالک کی پولیس کی جانب تارکین وطن کو نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آرہے ہیں، چند ماہ قبل ڈینش ریفیوجی کونسل نے انکشاف کیا تھا کہ کروشین پولیس کی جانب سے مہاجرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جس کی یورپی یونین سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔