یوکرین کی 28 برس قبل کی وہ غلطی، جو آج اس کی بڑی کمزوری بن گئی
کیف: یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یوکرین گزشتہ کئی برسوں سے روس کے نشانے پر ہے، پہلے کریمیا پر براہ راست قبضے اور پھر ڈونٹسک اور لوہانسک پر باغیوں کے نام پر روس کا کنٹرول ۔ اور اب تازہ کشیدگی میں تو یوکرین کا پورا وجود ہی خطرے میں ہے۔
روس جیسی بڑی طاقت کے سامنے یوکرین کے لئے اپنا دفاع کرنا مشکل ٹاسک ہے، لیکن کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد جب یوکرین ایک آزاد ملک بنا تھا ، تو اس وقت وہ بھی ایٹمی طاقت تھا، مگر 1994 میں ہنگری کے درالحکومت بوڈا پیسٹ میں یورپی سلامتی اور تعاون کی کانفرنس میں یوکرین نے امریکہ ، برطانیہ اور خود روس کی یقین دہانی پر ایٹمی ہتھیار ترک کردئیے، ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کے جواب میں میمورنڈم کے دستخط کنندہ ممالک روس، برطانیہ اور امریکہ نے خود کو پابند بنایا تھا کہ وہ یوکرین کی سرحدوں اور خود مختاری کا احترام کریں گے۔ تاہم آج اس معاہدہ کے دستخط کنندہ روس سے ہی یوکرین کو سب سے بڑا سیکورٹی خطرہ لاحق ہے، اس کے برعکس اگر یوکرین اگر ایٹمی طاقت ہوتا، تو روس کے لئے جنگ کے بارے میں سوچنا بھی محال ہوسکتا تھا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو نے یوکرین تنازعہ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ وقت کے ساتھ روسی صدر پیوٹن کے حوصلے بلند ہوتے گئے ہیں، روسی فوجی دستوں نے عملی طور پر رقبے کے لحاظ سے یورپ کی دوسری سب سے بڑی ریاست یوکرین کے ایک حصے (ڈونٹسک اور لوہانسک) پر قبضہ کر لیا ہے، جو اقوام متحدہ کا رکن بھی ہے۔ روس کی یوکرین میں فوجی مداخلت بوڈاپیسٹ میمورنڈم کی خلاف ورزی ہے، روسی صدر پیوٹن نے پیر کو اپنی قوم سے خطاب میں یوکرین کے بارے میں کہا کہ وہ صرف ایک ہمسایہ ملک ہی نہیں ہے، وہ ہماری تاریخ و ثقافت اور ہمارے فکری اور روحانی تسلسل کا ناقابل تنسیخ حصہ بھی ہے۔ اس طرح روسی صدر عملی طور پر پورے یوکرین پر دعویٰ کررہے ہیں۔