’’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘، چرچ سے تارکین کو کوچ کرنے کا کہہ دیا گیا
برسلز: اردو کے معروف شاعر ابن انشا کا یہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا، ’’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ اس شہر میں جی کا لگانا کیا‘‘۔ تو اب ایسا ہی کچھ ان تارکین کو بھی کرنے پڑیگا، جو ایک سال سے یورپی ملک کے چرچ میں پناہ لئے ہوئے ہیں، اور حکومت سے امیگریشن کا مطالبہ کررہے تھے۔
جی ہاں ہم بات کررہے ہیں، یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر بیلجئیم کے شہر برسلز کے چرچ میں مقیم غیر قانونی تارکین کی، برسلز کے مرکز میں واقع مشہور چرچ Beguinage یوں تو ہمیشہ تارکین وطن کے لئے بہت فراخ دل رہا ہے، اور چرچ کے پادری Daniel Alliet نے ہمیشہ حالات کے ستائے ہوئے تارکین وطن کے لئے اپنے دروازے اور دل کا کھلا رکھا ہے، تاہم گزشتہ برس جنوری سے اس چرچ میں درجنوں تارکین موجود ہیں، جن کا مستقل قیام وہیں ہے، ان تارکین میں سے اکثریت برسوں سے بیلجئیم میں مقیم ہے، لیکن انہیں ابھی تک امیگریشن نہیں ملی، اور وہ اسی لئے چرچ میں رہ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بیلجئیم میں کاغذات نہ ملنے پر تارکین نے کیسے احتجاج کیا؟
گزشتہ برس مئی سے جولائی کے درمیان چرچ میں 400 کے قریب بھوک ہڑتال بھی کی تھی، جس کے دوران کئی تارکین کو اسپتال منتقل کرنا پڑگیا تھا، جبکہ چند تارکین نے تو اپنے ہونٹ سی لئے تھے۔ اس احتجاج کے بعد جولائی میں بیلجئیم کی حکومت نے ان سے مذاکرات کئے تھے، اور ان کے پناہ اور ورک پرمٹ کے کیس تیزی سے نمٹانے کی یقین دہانی کرائی تھی، تاہم اب تک بیشتر تارکین کو کاغذات نہیں ملے۔
دوسری طرف مسلسل ایک سال تک ان تارکین کی میزبانی کرنے والی چرچ کی انتظامیہ نے اب انہیں جانے کا کہہ دیا ہے، اس وقت دو درجن کے قریب تارکین وہاں مقیم ہیں، چرچ کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ چرچ کی عمارت اس سخت سرد موسم میں اتنے تارکین کی رہائش کے قابل نہیں ہے، یہاں صرف ایک باتھ روم ہے، جبکہ نہانے اور گرم رکھنے کا بھی کوئی مناسب انتظام نہیں۔لہذا یہاں تارکین کا مزید قیام اب ان کی صحت کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، لہذا تارکین یہاں سے چلے جائیں۔
چرچ کی جانب سے تارکین کو جانے کا پیغام ملنے کے بعد اب ان کی حامی تنظیمیں کسی متبادل مناسب جگہ کی تلاش میں ہیں، جبکہ چرچ انتظامیہ نے حکومت سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ تارکین کا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مسئلہ حل کرے۔