کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے ہم، تارکین کا ایک گروپ بہت دور جا نکلا
ہلنسکی: وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے ہم‘‘، کچھ ایسا ہی تارکین کے ایک گروپ نے کیا ہے، جو ایسے یورپی ملک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں ان کے لئے بظاہر پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی لگتا تھا، جس پر وہاں کی انتظامیہ بھی حیران رہ گئی۔
جی ہاں آج کل بیلاروس کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تارکین کو بلا کر یورپی سرحد پر بھیجنے کا تنازعہ چل رہا ہے، بیلاروس تو ان تارکین کو پولینڈ، لٹویا اور لتھوانیا کی سرحد پر دھکیل دیتا ہے، لیکن اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ بیلاروس پہنچنے والا تارکین کا ایک گروپ ان تین یورپی ممالک کی سرحدوں سے بہت دور ہزاروں میل کا فاصلہ کسی طرح طے کرکے ایسے یورپی ملک پہنچ گیا ہے، جہاں عام حالات میں بھی پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے، جی ہاں 30 سے زائد تارکین کا یہ گروپ برف میں گھرے چھوٹے یورپی ملک فن لینڈ پہنچ گیا ہے۔ فن لینڈ کے ایک اخبار نے اس بارے میں خبر شائع کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ تارکین کا یہ گروپ پہلے بیلاروس ہی پہنچا تھا، اور وہاں سے کسی طرح یہ یورپ کے دور دراز ملک فن لینڈ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
اخبار نے فن لینڈ کی وزیرداخلہ ماریہ اوسلو کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے بھی بیلارس کے طرز عمل کی مذمت کی ہے، دوسری طرف فن لینڈ کے سابق وزیرداخلہ پیٹری اورپو کا کہنا ہے کہ ہمیں بیلارس کے ہائبرڈ حملوں کو ناکام بنانے کے لئے سیاسی پناہ کے قوانین پر نظرثانی کرنی ہوگی، اور یہ دنیا کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ اس طرح کی حرکتوں سے فن لینڈ کو متاثر نہیں کیا جاسکتا ، نہ ہی انسانی اسمگلر ہمیں مرعوب کرسکتے ہیں۔