کرونا کے علاج کی تلاش، خطرناک سانپ کا زہر کیا تریاق بن پائے گا؟

0

لندن: ایسے وقت میں جب کرونا کی وبا نے گزشتہ ڈیڑھ برس سے دنیا میں تباہی پھیلائی ہوئی ہے، اور اس کی ویکسین بھی ایک حد تک ہی موثر ثابت ہورہی ہے، سائنسدانوں کو اس وبا کے علاج کے حوالے سے اہم کامیابی ملی ہے، اور دنیا میں پایا جانے والا ایک خطرناک سانپ اس کا زینہ بنا ہے۔

تفصیلات کے مطابق برازیل میں ایک انتہائی خطرناک سانپ پٹ وائپر پایا جاتا ہے، اس سانپ کی لمبائی 6 فٹ تک ہوتی ہے، یہ بولیویا، پیراگوئے اور ارجنٹائن میں بھی پایا جاتا ہے، اس سانپ کے خطرناک ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک وقت میں 16 انسانوں کو ڈس کر ہلاک کرنے کی قوت رکھتا ہے، جس سے اس سانپ کے زہر کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن اب اسی خطرناک زہر کی مدد سے انسانوں کو کرونا جیسی وبا سے نجات دلانے کا امکان بھی روشن ہوگیا ہے، سائنسی جریدے’’مالیکیولز‘‘ میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پٹ وائپر سانپ کی ایک قسم ’’گاراکوسو‘‘ کے زہر میں ایسے مالیکیول پائے جاتے ہیں، جو کرونا کے جرثومے کو روک سکتے ہیں، اور یہ کرونا کے علاج کی طرف پہلی بڑی پیشرفت ہے، جس کی اب تک کوئی دوا تیار نہیں کی جاسکی، اور ویکسین بھی ایک حد تک کارگر ثابت ہورہی ہے۔

برازیل کے محققین نے اس حوالے سے ایک بندر پر تجربہ کیا ہے، انہوں نے کرونا سے متاثرہ بندر میں اس خطرناک سانپ کے زہر میں موجود مالیکیول داخل کئے، تو بندرکے خلیوں میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ رکنے لگا، اس سانپ کے زہر سے بنائی گئی دوا کا علاج ایک بیمار بندر پر کیا گیا، اور یہ باعث حیرت تھا کہ زہر میں موجود ایک مالیکیول نے وائرس سے نکلنے والی پروٹین کو روک دیا، جس سے کرونا کی افزائش رک گئی۔ اس مالیکیول نے کرونا وائرس کی 75 فیصد پروٹین کو باہر نہ آنے دیا۔

واضح رہے کہ کرونا وائرس سے نکلنے والی یہ پروٹین ہی انسانی جسم میں بیماری کو پھیلانے کا عمل کرتی ہے۔ برازیل کی یونیورسٹی آف ساؤ پالو کے پروفیسر رافیل گائڈو نے کہا کہ اس تجربے کے بعد ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ سانپ کے زہر کا یہ جزو وائرس میں ایک بہت اہم پروٹین کو روک سکتا ہے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ مالیکیول اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے اور اسے ہم لیبارٹریوں میں بھی تیار کرسکتے ہیں، جس سے سانپ سے براہ راست زہر نکالنے کی ضرورت بھی ختم ہوسکتی ہے، ابتدائی ریسرچ میں سانپ کے زہر سے تیار دوا کے کوئی مضر اثرات بھی سامنے نہیں آئے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ابتدائی تجربات کئے گئے ہیں، اور ابھی مزید تحقیق جاری ہے۔

دوسری طرف کئی محققین کو یہ خدشات بھی لاحق ہوگئے ہیں کہ اگر اس سانپ کے زہر سے ادویات بننے لگتی ہیں تو یہ تحقیقی عمل اس سانپ کی نسل کو ناپید کر سکتا ہے۔ ساؤ پالو میں بوٹنن انسٹی ٹیوٹ کے حیاتیاتی گروپ سے وابستہ جوز ف پورٹو کا کہنا تھا کہ اگر اس سانپ کے زہر میں کرونا کا تریاق پایا جاتا ہے، تو اس صورت میں اس سانپ کے قتل عام کا خدشہ بھی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.