اٹلی بے روزگاری کے حوالے یورپ کا دوسرا بدترین ملک

0

روم: ایک طرف اٹلی میں روزگار کھلوانے کے لئے احتجاج جاری ہے، اور دوسری جانب اٹلی بے روزگاری کے حوالے سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں دوسرا بدترین ملک قرار پایا ہے، اٹلی میں لاک ڈاؤن ختم کروانے کیلئے جاری احتجاج میں اب انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں۔

جنہوں نے روم میں تھیڑ پر قبضہ کرکے اپنی آواز حکومت تک پہنچانی شروع کی، اس کے علاوہ سرکاری ائرلائن کے عملے نے بھی مارچ کیا ہے، تفصیلات کے مطابق اٹلی میں کاروبار کھولنے اور سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے احتجاج جاری ہے، روم میں سرکاری ائرلائن الطالیہ  کے سینکڑوں ورکرز نے بھی مظاہرہ کیا، بحران کا شکار ائرلائن کے ملازمین کا کہنا تھا کہ وہ حکومت سے امداد نہیں مانگ رہے، بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ ائرلائن میں سرمایہ کاری کی جائے، تاکہ ان کی نوکریاں محفوظ رہیں، ان کا کہنا تھا کہ الطالیہ کی جگہ چھوٹی کمپنی لانے کے وہ مخالف ہیں، اس دوران انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے کارکنوں نے بھی روم میں ہی احتجاج کیا، اور گلوبل تھیٹر کے دروازے پر جا کر بیٹھ گئے، ان کا مطالبہ تھا کہ تھیٹر کو فوری کھولا جائے، تاکہ انہیں روزگار میسر آئے،  مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کا شعبہ ایک برس سے بند ہے، اب حکومت ایس اوپیز کے ساتھ انہیں کھولنے کی اجازت دے، ان کا  کہنا تھا کہ وہ احتجاج بھی ایس او پیز کے ساتھ کررہے ہیں، اور کرونا ٹیسٹ منفی آنے پر مظاہرے میں آئے ہیں، اطالوی وزیر کلچر Dario Franceschini نے بھی مظاہرین کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت یورپی چیمپین شپ کے لئے فٹبال شائقین کو 25 فیصد گنجائش کے مطابق آنے کی اجازت دینے کے لئے تیار ہے، تو اگلا مرحلہ تھیٹر کھولنے کا ہونا چاہئے۔

یورپی رپورٹ

یورپی یونین کے شماریاتی ادارہ یورو اسٹیٹ نے اٹلی میں روزگار کے حوالے سے بری رپورٹ دی ہے، ادارہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 2020 میں اٹلی یونان کے بعد روزگار کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک رہا ہے، اس دوران 20 سے 64 برس تک کے اطالوی شہریوں میں روزگار کی شرح 58 فیصد پر آگئی ہے، اگرچہ یورپی یونین  کے تمام ممالک میں روزگار کی شرح کم ہوئی ہے، اور یہ ایک فیصد گرکر 68 فیصد سے کم ہوکر 67 پر آگئی ہے، لیکن اٹلی میں صورتحال زیادہ خراب ہے، جو یورپی ایوریج سے بہت کم ہے۔

خیال رہے کہ اٹلی پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھ گیا، جبکہ افراط زر یعنی مہنگائی میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اور لوگوں کی قوت خریداری بھی کم ہورہی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.