یورپی سرحد پر افغان خواتین سے شرمناک سلوک؟رپورٹ آگئی

0

برسلز: یورپ آنے والے افغان مہاجرین کی بڑی تعداد اپنی خواتین اور بچوں کو بھی ساتھ لے کر مشکل سفر پر نکلتی  ہے، تاہم اب بلقان کے زمینی روٹ سے یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران کچھ افغان خواتین کے ساتھ کروشین اہلکاروں کے شرمناک سلوک کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ جن کی یورپی یونین نےبھی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کروشین اہلکاروں پر بوسنیا سے داخل ہونے والے تارکین پر تشدد، ان سے لوٹ مار کے الزامات عالمی این جی اوز تواتر سے لگاتی آرہی ہیں، تاہم اب کروشیا کے اہلکاروں کی جانب سے افغان مہاجر خواتین کے ساتھ شرمناک سلوک کی رپورٹ بھی سامنے آگئی ہے، ڈنمارک کی مہاجرین سے متعلق تنظیم ’’ڈینش ریفیوجی کونسل‘‘ (ڈی آر سی) نے خواتین  سے شرمناک سلوک کی رپورٹ تیار کی ہے، اور برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ نے اسے شائع کیا ہے، افغان خواتین نے بتایا ہے کہ  کروشین اہلکاروں نے کس طرح  بچوں کے سامنے انہیں برہنہ ہونے پر مجبور کیا، اور استحصال کا نشانہ بنایا۔

خواتین کی داستان

ایک افغان مہاجر خاتون نے بتایا کہ بوسنیا سے کروشیا میں داخل ہونے کے بعد انہیں کروشین اہلکاروں نے پکڑ لیا، اسے پولیس کی گاڑی میں بٹھایا گیا، جبکہ اس کے ساتھ موجود مرد کو گاڑی کے باہر تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا، اس کے بعد ایک پولیس افسر اس کے قریب آیا، اور اس کے جسم  کو چھونا شروع کردیا، اس نے مزاحمت کی کوشش کی تو کروشین افسر نے اسے تھپڑ مارے، اور جان سے مارنے کی دھمکی دی، جس پر وہ اتنی خوفزدہ ہوگئی کہ اس کی آواز بھی نہیں نکل پارہی تھی، کروشین پولیس افسر مسلسل اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہا، یہ عمل کئی منٹ تک جاری رہا، پھر ایک اور پولیس افسر وین  کے قریب آیا اور اس نے ساتھی کو میرے ساتھ شرمناک سلوک سے روکا، اس پر وہ ناراض ہوا، اور مجھے بھی گاڑی سے باہر نکال کر تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا، میرے منہ سے بھی خون جاری ہوگیا، میں رو رہی تھی، لیکن بے بس تھی، پھر دیگر اہلکاروں نے اس پولیس افسر کو روکا۔

ایک دوسری افغان خاتون نے ڈینش ریفیوجی کونسل کو 15 فروری کو کروشیا میں داخل ہونے پر اپنے ساتھ پیش آنے والے شرمناک واقعہ کے بارے میں کچھ یوں بتایا ہے، افغان خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ایک دوسری افغان فیملی کے دو بچوں اور ایک  بڑی عمر کے افغان مرد کے ساتھ کروشیا داخل ہوئی، اس افغان کی بیوی اور بیٹی پہلے ہی کروشیا کے مہاجر کیمپ میں موجود تھی، کروشیا میں داخل ہوئے تھے، کہ پولیس کی کار ان کے پاس پہنچ گئی، انہوں نے رائفل تان لی، اور زمین پر بیٹھنے کو کہا،  ان کے ساتھ موجود افغان مرد نے اپنے اور دونوں بچوں کے اہلخانہ کے پہلے سے زغرب کے کیمپ میں موجود ہونے کے کاغذ دکھائے اور سیاسی پناہ کی درخواست کی، لیکن پولیس افسر نے ان سے کاغذ چھین کر پھاڑ ڈالے، مرد اور دونوں بچوں پر تشدد شروع کردیا، سامان کی تلاشی لی، خاتون نے بتایا کہ اس کے پاس دو موبائل فون اور ڈیڑھ سو یورو تھے، ایک فون ان کے ہمراہ جانے والے افغان مرد کا تھا، تینوں چیزیں اس نے چھپا رکھی تھیں، لیکن سامان سے فون کا چارجر ملنے پر ایک کروشین افسر غصے میں آگیا، اور میری جسمانی تلاشی کیلئے کہا۔

افغان خاتون کے مطابق اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، اور تم مجھے چھو نہیں سکتے، جس پر  پولیس افسر نے اسے زور کا تھپڑ مارا، اور کہا تم مسلمان ہو تو کروشیا میں کیا لینے آئی ہو، بوسنیا میں کیوں نہیں رکی، اس کے ساتھ ہی اس نے میرا دوپٹہ اور جیکٹ اتار پھینکی اور زبردستی میری جسمانی تلاشی لینے لگا، اس نے اپنے بچاؤ کیلئے پولیس افسر کو پیسے اور دونوں فون دے دئیے، لیکن وہ افسر پھر بھی نہ رکا، اور اس کے ساتھ  جسمانی طور پر چھیڑ چھاڑ کرنے لگا، اسے برہنہ ہونے پر مجبور کرنے لگا، وہ چیخی چلائی لیکن افسر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا تھا، اس اثنا میں ایک اور پولیس گاڑی وہاں پہنچ گئی، اور ہم چاروں کو اس میں بٹھادیا گیا، 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی روکی گئی، اس موقع پر تین پولیس افسر آئے، ایک نے مجھ سے میرے خاوند کے بارے میں پوچھا، میں نے اپنے ساتھ موجود افغان مرد کے بارے میں بتایا کہ یہ میرا بھائی ہے،  اس کے ساتھ ہی وہ ہمارے ساتھ موجود بچوں کو مارنے لگے اور جنگل کی طرف لے گئے، دوسری طرف افغان مرد جسے میں نے اپنا بھائی بتایا تھا۔

اسے میرے سامنے برہنہ کردیا گیا اور مجھے اس کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا گیا۔ اس وقت میں بہت صدمے میں تھی، پھر ایک افسر میری طرف آیا، اور مجھے بھی لباس اتارنے کو کہنا، انکار پر مجھ پر تشدد شروع کردیا، اور زبردستی میرے کپڑے اتارنے لگا، مجھے بے لباس کرنے کے بعد اس نے چھیڑ چھاڑ شروع کردی، مجھے کہا کہ کیا تم  میرے ساتھ چلو گی،  میں اس وقت بس روئے جارہی تھی، کافی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا، اور پھر اس افسر نے میری گردن پر چاقو رکھا اور کہا کہ اگر کسی سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آئندہ کبھی کروشیا میں داخلے پر جان سے مار دوں گا، پھر مجھے برہنہ حالت میں وہاں کچرے کی صفائی پر مجبور کیا گیا، بعد ازاں ہم چاروں کو مختصر لباس دے کر واپس بوسنیا کی حدود میں دھکیل دیا گیا، اور اب ہم  Miral camp میں ہیں، کروشیا کے حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے، اور کہا ہے کہ وہ اس  کی تحقیقات کررہے ہیں، لیکن ان الزامات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، تاہم  یورپی کمیشن نے افغان خواتین کےالزامات کو سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے کروشیا سے کہا ہے کہ وہ اس کی شفاف تحقیقات کرائے، اور یورپی کمیشن کو اس سے آگاہ رکھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.