سعودی عرب میں کفالہ نظام تبدیل کرنے کا اعلان، غیرملکیوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

0

ریاض: سعودی عرب نے بالآخر کفالہ نظام میں اصلاحات کا اعلان کردیا ہے، جس سے مملکت میں کام کرنے والے ایک کروڑ سے زائد غیرملکی کارکنوں کو سہولت حاصل ہوگی، لیکن لاکھوں ملازمتوں والے ایک اہم شعبے کو ان اصلاحات سے باہر رکھا گیا ہے، ماہرین نے سعودی عرب کی اعلان کی گئی اصلاحات کا ناکافی قرار دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سعودی عرب سمیت عرب ممالک میں رائج کفالہ نظام پر طویل عرصے سے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی ممالک تنقید کرتے آئے ہیں، اور کفالہ سسٹم کو ورکر کی غلامی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں غیر ملکی ورکر مکمل طور پر اپنے عرب آجر کے رحم وکرم پر ہوتا ہے، حتیٰ کہ اسے ملک چھوڑنے کے لئے بھی اپنے کفیل کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے، اور ورکرز کے پاسپورٹ بھی ان کے کفیلوں کے پاس ہوتے ہیں، اس طرح کسی گھریلو ایمرجنسی یا کسی اور ناگزیر صورت میں بھی غیرملکی ورکر اپنے کفیل کی مرضی کے بغیر اپنے ملک بھی واپس نہیں جاسکتا، اس کے علاوہ غیرملکی ورکرز پر کفیل کی مرضی کے بغیر ملازمت تبدیل کرنے کی بھی پابندی ہوتی ہے، جس سے ان کے استحصال کا راستہ کھلا رہتا ہے، ولی عہد شہزادہ سلمان نے عالمی مطالبات اور بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اس نظام میں اصلاحات لانے کا وعدہ کیا تھا، جو سامنے آگیا ہے۔

کفالہ نظام میں تبدیلیاں

سعودی عرب کے نائب وزیر برائے انسانی وسائل اور سماجی ترقی عبداللہ بن نصر نے اعلان کیا ہے کہ نئے نظام کے تحت غیرملکی ورکروں کو ایک کفیل سے دوسرے کفیل کے پاس ملازمت تبدیل کرنے کا حق دیا جارہا ہے اور وہ اب اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر بھی ملک چھوڑ کر جاسکیں گے۔

نئے نظام کے تحت کفیل اور غیرملکی ورکرز کے درمیان ملازمتی معاہدوں کی سعودی حکومت سے تصدیق کرانا ہوگی اور غیرملکی ورکر اپنے کفیل کی مرضی کے بغیر حکومتی اجازت سے دوسرے کفیل کے پاس ملازمت منتقل کرسکیں گے، اسی طرح غیر ملکیوں کو پاسپورٹ اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہوگی اور وہ کفیل کی اجازت  کے بغیر اپنے پاسپورٹ پر سعودی عرب سے خروج کے لیے مہر لگواسکیں گے۔

حکومت کی طرف سے دی گئی سہولتوں اور خدمات اسے استفادہ کے لئے بھی کفیل کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی، اور غیر ملکی ورکرز خود ان خدمات سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپلائی کرسکیں گے، کفالہ کا یہ نیا نظام اگلے برس 14مارچ 2021ء سے نافذ العمل ہوگا۔ نجی شعبے کے تمام غیرملکی ورکرز ان اصلاحات سے فائدہ اٹھاسکیں گے، انہوں نے کہا کہ کفالہ کا نیا نظام سعودی قیادت کے ویژن 2030ء کے اہداف حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، اس کے علاوہ اعلیٰ ہُنرمند افرادی قوت کو سعودی مارکیٹ کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی۔

گھریلو ملازمین سہولت سے محروم

سعودی وزیر نے کفالہ نظام میں جن اصلا حات کا اعلان کیا ہے، ان کا اطلاق سعودی عرب میں گھروں میں کام کرنے والے ملازمین پر نہیں ہو گا، جن کی تعداد 37 لاکھ  سے زائد بتائی جاتی ہے، اور جن کے استحصال کی سب سے زیادہ شکایات سامنے آتی ہیں، ان میں بالخصوص خواتین غیرملکی ورکرز شامل ہیں، تاہم سعودی حکام  کے مطابق گھریلو ملازمین کے لئے بھی اصلاحات لائی جائیں گی، جن پر ابھی کام ہورہا ہے، تاہم ہیومین رائٹس واچ کی سینئر ریسرچر روتھنا بیگم کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمین پر ان اصلاحات کا اطلاق نہیں کیا گیا، جو سب سے زیادہ کمزور طبقہ ہے، ان گھریلو ورکرز کو بغیر آرام دئیے کئی کئی گھنٹے کام لیا جاتا ہے، انہیں  گھروں میں بند رکھنے اور تنخواہیں نہ دینے کی شکایات بھی عام ہیں، اسی طرح خواتین گھریلو ورکرز کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے کیس بھی سامنے آتے رہتے ہیں.

انسانی حقوق کی تنظیں غیرمطمئن

انسانی حقوق کی تنظیموں نے سعودی حکومت کی کفالہ سسٹم میں اصلاحات کو ناکافی قرار دیا ہے، ہیومین رائٹس واچ کی سینئیر ریسرچر روتھنا بیگم نے  برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ کفالہ نظام میں اعلان کی گئی اصلاحات اہم ہیں، اور ان سے غیرملکی ورکرز کے حالات بہتر بنانے میں مدد ملے گی، تاہم انہوں نے کہا کہ یہ کفالہ نظام کا مکمل خاتمہ نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ اب بھی ورکرز کو سعودیہ میں داخلےکیلئے کفیل کی اجازت درکار ہوگی، اس کے علاوہ کفیل کے پاس ورکرز کا پرمٹ تجدید کرانے اور منسوخ کرانے کا اختیار بھی رہے گا، جس کا مطلب ہے کہ کفیل اب بھی ورکرز کا استحصال کرنے کی پوزیشن میں ہوگا، اسی طرح گھریلو ملازمین پر ان اصلاحات کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودیہ میں  اس وقت لاکھوں بغیر دستاویزات والے غیرملکی ورکرز موجود ہیں، اور ان میں سے بیشتر کا کوئی قصور بھی نہیں، ان ورکرز کی ریگولرائزیشن کے بارے میں بھی حکومت نے کوئی اعلان نہیں کیا، مائیگرینٹس رائٹ کے ریسرچر علی محمد نے کہا کہ ورکرز کو کفیل کی اجازت کے بغیر نقل وحرکت کی اجازت دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے، لیکن حراستی مراکز پر بھی اصلاحات ہونی چاہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ریسرچر مے رومنس نے کہا کہ جب تک ان اصلاحات کا نفاذ نہیں ہوجاتا، حقیقی تصویر سامنے آنا مشکل ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.