اٹلی میں زندگی ہارنے والے پاکستانی کی کہانی

0

سسلی: یہ روزگار کی تلاش میں لاہور سے اٹلی تک کا مشکل سفر کرنے والے عدنان صدیقی کی کہانی ہے، جو 2015 میں اپنا بہتر مستقبل بنانے کے لئے اٹلی پہنچا تھا، وہ عدنان صدیقی جو صرف اپنا نہیں بلکہ سب انسانوں کا سوچتا تھا، ان کی فلاح کے لئے کوشاں رہتا تھا۔

عدنان صدیقی جو سسلی میں مقیم ہم وطنوں ہی نہیں وہاں کے مقامی اطالوی باشندوں میں بھی بہت مقبول تھا، نرم مزاج اور ہنس مکھ عدنان صدیقی، جو بالآخر تارکین وطن کے حقوق محفوظ بنانے کی جدوجہد کرتے ہوئے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں نشانہ بن گیا۔

آخری رات

یہ جون کے اوائل کی رات ہے، جب سسلی کے  ٹاؤن کیلٹانیسٹا کے فلیٹ سے چیخوں اور مدد کے لئے پکار کی آواز آتی ہے، یہ آواز سن کر پڑوسی فوری طور پر پولیس کو فون کرتے ہیں، اورکچھ ہی دیر میں پولیس وہاں پہنچتی ہے تو وہاں بدنصیب پاکستانی تارک وطن عدنان صدیقی خون میں لت پت ملتا ہے، حملہ آوروں نے اس پر بے دردی کے ساتھ  چھرے کے وار کئے ہوتے ہیں، اس کی کمر، اس کے بازو، اس کی ٹانگیں ہر جگہ زخم ہوچکی ہوتی ہے، اس کے جسم پر 30 سینٹی میٹر خنجر کے مجموعی طور پر 5 وار کئے گئے، جن میں سے ایک جان لیوا ثابت ہوا، وائس ڈاٹ کام پر شائع رپورٹ کے مطابق اطالوی  تفتیش کاروں نے اس کیس میں 5 گرفتاریاں کیں۔

ممکنہ وجہ

عدنان صدیقی کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کیوں کہ وہ زرعی فارمز پر کام کرنے والے بغیر دستاویزات کے تارکین وطن کی فلاح کیلئے کام کررہےتھے، وہ سسلی کے علاقے میں مختلف گینگز کے ہاتھوں ان کے استحصال کے خلاف پولیس کو شکایات درج کراتے تھے، کیلٹانیسٹا میں تارکین وطن کو ٹریننگ اور سپورٹ فراہم کرنے والے ادارے ہاؤس آف کلچر اینڈ والنٹئیرنگ کے ڈائریکٹر فلپو مارتیتو کا کہنا ہے کہ یہ گینگز فارمز مالکان سے ان تارکین وطن کی مزدوری کے طور پر 50 یورو تک لیتے  ہیں، لیکن انہیں صرف 20 سے 30 یورو دئیے جاتے ہیں، حالاں کہ اٹلی میں کم ازکم فی گھنٹہ ویجز 7 یورو اور 13 سینٹ ہیں، جب ان تارکین وطن زرعی  ورکرز کیلئے عدنا ن صدیقی نے آواز اٹھائی تو پہلے انہیں ان گینگز نے ڈرایا، ان کے دوست عباس محمد کے مطابق جب عدنان صدیقی اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے، تو ان پر حملہ کرکے زخمی کیا گیا، وہ  کچھ دن اسپتال بھی داخل رہے، عباس کے مطابق اس حملے کے بعد عدنان صدیقی گھر میں اکیلے رہنے سے خوفزدہ رہتے تھے، اور اکثر اسے  کھانے پر بلالیتے تھے، میں انہیں تسلی دیتا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا۔

مقامی لوگوں میں مقبولیت

عدنان مقامی لوگوں میں بھی مقبول تھے، ان کے گھر کے قریب واقع تاریخی مرکز میں قائم ’’کیفے لومیری”  کی مالکن پیریا دی گوگنو ( PIERA DI GIUGNO) نے عدنان صدیقی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکثر میرے کیفے میں آتے تھے، وہ بہت مہربان انسان تھا، وہ میرے شوہر اور بچوں سے بھی ملتا تھا، ہم عدنان کو کھانے پر اپنے گھر بھی بلاتے تھے، میرے تین بیٹے ہیں اور میں عدنان کو اپنا چوتھا بیٹا سمجھتی  تھی۔ انہوں نے بتایا کہ گینگز کے کارندے  عدنان صدیقی سے بہت ناراض تھے کیوں کہ وہ ان کی شکایات پولیس کو کرتے تھے، انہوں نے پہلے عدنان کو ڈرانے کی کوشش کی اور پھر ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔

حکومتی اقدامات

اٹلی کی حکومت زرعی ورکرز کو استحصال سے بچانے اور ان  کے حقوق کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے، اور حال ہی میں دی گئی ایمنسٹی اسکیم میں بھی زرعی ورکرز کو ترجیح دی گئی، تاکہ انہیں قانونی حیثیت مل جائے، جس کے بعد ان  کے حقوق  زیادہ محفوظ بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.