رس گلے کھانے والے پھر جلدی کر گئے، جسٹس فائز کی جان نہیں چھوٹی

0

اسلام آباد: پھر وہی جمعہ،پھر وہی سپریم کورٹ، پھر لندن جائیدادوں کا معاملہ اور پھر ملک کی قسمت سے جڑا کوئی اہم کیس، لیکن مماثلت یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ رس گلوں تک جاتی ہے۔

جی ہاں، جس طرح ن لیگ کے قائد نوازشریف کیخلاف لندن جائیدادوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے عبوری فیصلے میں اکثریت رائے سے معاملہ تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کو بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا تو ن لیگ کے رہنماؤں اور حامیوں نے فوری رس گلے کھانے شروع کردئیے تھے، لیکن بعد میں جب جے آئی ٹی رپورٹ آئی، اور اس پر سپریم کورٹ کا  متفقہ فیصلہ آیا تو ن لیگ کواحساس ہوا کہ پہلے رس گلے غلط کھالئے تھے۔

اب پھر وہی لابی ہے، جو جسٹس فائز عیسی ٰ کے ساتھ کھڑی ہے،اب کی بار بھی سپریم کورٹ نے  پانامہ کیس  سے ملتا جلتافیصلہ دیا ہے، یعنی ایسا فیصلہ جس کاحتمی نتیجہ بعد میں نکلے گا۔

سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف حکومتی ریفرنس اور جوڈیشل کونسل کا شوکاز نوٹس  کالعدم قرار دے دیا ہے،اس پر اپوزیشن  کے حامی وکلا ہوں یا صحافی  ایک بار پھر  سپریم کورٹ میں رس گلے کھاتے نظر آئے ۔

یہ بھی پڑھیں:رس گلے کھانے والے پھر جلدی کر گئے، جسٹس فائز کی جان نہیں چھوٹی

کیا جسٹس فائزعیسیٰ کی جان چھوٹ گئی ؟

کیا سپریم کورٹ کی جانب سے حکومتی ریفرنس کالعدم قرار دینے سے جسٹس فائز عیسیٰ کی لندن جائیدادوں کے معاملے سے جان چھوٹ گئی ہے ؟ تو اس کا جواب ہے نہیں، سپریم کورٹ کے 3 کے مقابلے میں 7 ججوں نے اکثریتی فیصلے میں جسٹس فائز عیسٰی  کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا ہے اور ایف بی آر کے کمشنر کو 60 روز کے اندر اس کا فیصلہ کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔

فیصلے کے مطابق ایف  بی آر کمشنر  اپنی تحقیقاتی رپورٹ سپریم  جوڈیشل کونسل کو پیش کریں گے، اورسپریم جو ڈیشل کونسل  جو ججوں کے احتساب  کا آئینی فورم ہے،وہی جسٹس فائز عیسیٰ کے  مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کمشنر ان لینڈ ریونیو  اس فیصلے کے 7 روز کے اندر  جسٹس فائزعیسیٰ   کی اہلیہ اور بچوں کو   لندن جائیدادوں کے حوالے سے نوٹس جاری کریں گے،جس میں وہ ان سےلندن کی3جائیدادوں نمبر 1۔ اوکیڈل روڈ لندن  ای 11 فور ڈی ایل ، نمبر2۔  ایڈیلیڈ روڈ لندن  ای ٹین فائیو اینڈ بلیو اور نمبر 3۔ کونسٹن  کورٹ کینڈل اسٹریٹ لندن ڈبلیو22 اے  این سے متعلق ان سے علیحدہ علیحدہ  ذرائع آمدن طلب کریں گے۔

عدالت نے اس حوالے سے ایف بی آر کمشنر کا دائرہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں تک بڑھا دیا ہے، عدالت نے اس سے پہلے اس حوالے سے جاری نوٹس یا کسی بھی قسم کی کارروائی کو کالعدم بھی قرار دیا ہے۔

 ایف بی آر کیسے کارروائی کرے گا

سپریم کورٹ نےکہا ہے کہ ایف بی آر جسٹس فائز عیسیٰ کی سرکاری رہائشگاہ پر کورئیر یا کسی بھی اور مناسب ذریعہ سے نوٹس بھیجے گا، اور نوٹس کی موصولی اس کی تعمیل سمجھی جائے گی، جس کے بعد جسٹس فائزعیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو اس کا متعلقہ  دستاویزات (جو وہ مناسب سمجھیں) کے ساتھ جواب جمع کرانا ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ بیرون ملک ہوں گے،تو بھی یہ ان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ بروقت  نوٹس کا جواب دیں، ان کی ملک میں عدم موجودگی کی وجہ سے  ایف بی آر کمشنر اپنی کارروائی نہیں روکیں گے۔

نوٹس کا جواب ملنے کے بعد کمشنر جسٹس فائز  فیملی  کو ذاتی طور پر یا نمائندے کے ذریعہ سننے کا موقع فراہم کریں گے، جس کے بعد وہ اس کیس کا فیصلہ سنادیں گے۔

60 دن میں فیصلہ کرنا ہوگا

سپریم کورٹ نے کمشنر ایف بی آر کو 60 روز میں کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا ہے، جبکہ انہیں 75 روز میں فیصلہ سنانا ہوگا، اس حوالے سے کوئی توسیع نہیں دی جائے گی، کمشنر کے فیصلے کے 7 روز کے اندر چیئرمین ایف بی آر اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کو رپورٹ دیں گے، جو اسے کونسل کے سربراہ اور معزز چیف جسٹس کو پیش کریں گے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کریں گے، جو اس پر غور کے بعد کارروائی یا کوئی بھی فیصلہ جو وہ مناسب سمجھے کرے گی، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ ازخود نوٹس کے تحت کارروائی تصور کیا جائے گا، عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس حکم کے 100 روز کے اندر اگر ایف بی آر چیئرمین کی رپورٹ موصول نہیں ہوتی تو سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری چیف جسٹس کو اس سے آگاہ کریں گے، جو رپورٹ میں تاخیر پر ایف بی آر سے وضاحت طلب کرنے سمیت کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔

اپیل کا حق

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ایف بی آر کے فیصلے کے خلاف فریقین کا اپیل کا حق برقرار رہے گا، جو 2001 کے قانون کے تحت حاصل ہے، اور عدالتی فیصلے سے اس حق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، تاہم ایسی کسی اپیل کا اثر سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری کارروائی پر نہیں پڑے گا، اور کونسل ایف بی آر کمشنر کے فیصلے کا جائزہ لے کرمناسب حکم جاری کرسکتی ہے، اسی طرح سپریم  جوڈیشل کونسل مناسب سمجھے تو وہ اپیل اتھارٹی کو بھی نوٹس یا ہدایت جاری کرسکتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.