”34 برس قبل قتل ہونے والے سویڈش وزیراعظم کے کیس کی دلچسپ کہانی،“ انجام آج متوقع

0

اسٹاک ہوم: گزشتہ 34 برس سے اپنےوزیراعظم اولف پالمے کے قاتل کی تلاش لگے سویڈن کے سیکورٹی اداروں نے آخر کار اس کیس کو حل کرلیا ہے، اور اس حوالے سے سویڈش حکام آج ایک کو اہم اعلان کرنے جارہے ہیں۔

اولف پالمے کون تھے

اولف پالمے  اپنے وقت کی دونوں سپرپاورز امریکہ اور سوویت یونین پر سخت تنقید کرتے تھے ،اس لئے ان کے قتل کے بعد عالمی طاقتوں کی  طرف بھی انگلیاں اٹھائی گئیں، پالم اس وقت کی نسل پرست جنوبی افریقہ کی حکومت کے بھی سخت ناقد تھے جبکہ  بھارت کو بوفورس توپیں فروخت کرنے کا اسکینڈل بھی ان کے دور میں سامنے آیا تھا، جس پر  وہ کارروائی کرنا چاہتے تھے، اس لئے جنوبی افریقہ اور بھارت بھی شک کے  گھیرے میں آئے۔

اولف کے قتل کے حوالے سے لاتعداد سازشی نظریات سامنے آتے رہے کہ ان کاقتل کس نے اور کیوں کرایا،اس سوال کا جواب 34 سال بعد سویڈش حکام نے ڈھونڈ لیا ہے ، جس کا وہ آج اعلان کریں گے، لیکن ان کے فلمی انداز میں قتل اور  تین دہائیوں تک پھیلی افسانوی تحقیقات سے جو نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے، اس کے مطابق پالم کا قتل جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت نے کروایا تھا، اور اس میں  وہاں کے سرکاری ادارے ملوث تھے۔

پالمے کب اور کیسے قتل ہوئے

یہ 28 فروری 1986 کی سرد رات تھی،جب سویڈش وزیراعظم اولف پالمے دفتر سے  گھر پہنچے، وہ عوامی رہنما تھے اور محافظوں کو ساتھ رکھنا پسند نہیں کرتے تھے، سو گھر آنے سے قبل ہی وہ محافظوں کو  چھٹی دے چکے تھے، ان کی اہلیہ لزبٹ نے سینما جانے کی خواہش کا اظہار کیا، جس کے ٹکٹ ان کے بیٹے مارٹن لے چکے تھے اور وہ بھی اپنی  دوست کے ہمراہ مزاحیہ فلم دیکھنے جارہے تھے۔

پالمے اور ان کی اہلیہ نے ٹرین لی اور سینما گھر پہنچ گئے، فلم دیکھنے کے بعد ان کا بیٹا اپنی دوست کے ہمراہ چلا گیا جبکہ  وزیراعظم پالمے اور ان کی اہلیہ لزبت اسٹاک ہوم کی مصروف شاہراہ سویوگن پر آگئے۔

یہیں  ساڑھے 11 بجے کے قریب  پر ایک قد آور قاتل نے پالمے پر دو فائر کیے، ایک گولی وزیراعظم کو پیچھے کمر پر انتہائی قریب سے لگی اور دوسری ان کی اہلیہ لزبت کو لگی، فائرنگ کے بعد قاتل فرار ہوگیا۔

پالمے سویڈش عوام میں بہت مقبول تھے، لہذا پوری قوم ان کے قتل سے صدمے سے دوچار ہوگئی، لیکن قاتل بہر حال فرار ہوچکا تھا، پولیس کیلئے بظاہر یہ اندھا کیس بن گیا۔

ملزم کی گرفتاری

اس کیس میں سویڈش پولیس نے  1988 میں ایک سزا یافتہ مجرم کرائسٹر پیٹرسن کو گرفتار کیا، جو 1970 میں ایک شخص کے قتل میں ملوث رہ چکا تھا۔

کرائسٹر کی اس مشتبہ شخص سے مماثلت بھی پائی گئی تھی جو پالمے کے قتل کی رات سینما کے قریب نظر آیا تھا،حتیٰ کہ  آنجہانی سویڈش وزیراعظم پالمے کی بیوہ لزبت نے بھی پیٹرسن کو قاتل کے طور پر شناخت کیا اور 1989 میں اسے قید کی سزا سنائی گئی لیکن  آلہ قتل برامد نہیں ہوا تھا، سو اپیل میں صرف تین ماہ بعد ہی وہ  رہا ہوگیا ،پیٹرسن کا 2004 میں انتقال  بھی ہوگیا۔

کیس میں نیا موڑ

اس قتل کیس نے  نیا موڑ 1996 میں لیا جب جنوبی افریقہ کے ایک سابق پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ پالمے کو نسلی امتیاز کے خلاف مؤقف کی وجہ سے قتل  کیا گیا۔

سویڈن کے تفتیش کار جنوبی افریقہ گئے لیکن انہیں کوئی شواہد نہ مل سکے، سویڈش پولیس تو ناکام لوٹ آئی لیکن لندن میں مقیم ایک صحافی اموگن نائٹس نے اس کیس پر کام کیا، اصل میں تو وہ ایک اور سویڈش رہنما  ڈیگ ہمیر کو جلڈ  کے کیس کی تحقیقات کررہے تھے، جو طیارے کے پراسرار حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

ڈیگ ہمیر اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل تھے، اور اولف  پالمے کی طرح وہ بھی سپرپاورز کو چیلنج کرتے تھے، چھوٹے ملکوں کی حمایت کرتے تھے، اس لئے اموگن نائٹس کے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتے کہ کیا انہیں انہی بڑی طاقتوں نے مروایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 2014 میں جب وہ دیگ کے کیس پر کام کررہے تھے، اچانک درمیان میں اولف پالمے کا معاملہ بھی آگیا، جب انہیں ایک صحافی نے سابق جنوبی افریقن جنرل ٹائی مینار کی تیار دستاویز حوالے کیں، جن میں پالم کو جنوبی افریقہ کا دشمن قرار دیا گیا تھا۔

برطانوی صحافی کی تحقیقات

ان دستاویزات میں ان افراد کے نام شامل تھے، جو اس قتل کی منصوبہ سازی اور اس پر عمل کرانے کے ذمہ دار تھے، بعد میں ان دستاویزات کے بارے میں سویڈن میں مشہور کردیا گیا کہ یہ جعلی ہیں، لیکن میں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اگلے برس جنوبی افریقی ریٹائرڈ جنرل کرس تھورن سے پریٹوریا میں ملا جو ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ رہ چکے تھے۔

برطانوی صحافی کے مطابق سابق جنرل  نے مجھے آن کیمرہ کہا کہ پالمے کے قتل سے متعلق جنوبی افریقن دستاویزات حقیقی معلوم ہوتی ہیں۔

صحافی کا کہنا ہے کہ پالمے کے کیس میں سب سے اہم رابطہ جنوبی افریقہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ ٹیٹی گرون ولڈ تھے، جو پالم کے قتل کے وقت عہدہ پر موجود تھے، میں ان سے ملا لیکن وہ  جنوبی افریقہ کی انٹیلی جنس کے سی آئی اے  کے ساتھ   اشتراک اور اسرائیل کی جانب سے ایٹمی پروگرام میں مدد کی کہانیاں تو سناتے رہے، مگر پالمے کے قتل سے متعلق کچھ بتانے سے گریز کیا۔

اموگن نائٹس نے کہا کہ بالاخر تنگ آکر میں نے آخری ملاقات میں انہیں کہا کہ جنرل صاحب آپ کسی بھی اور شخصیت سے زیادہ   پالمے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں مدد دے سکتے ہیں، میں نے انہیں پالمے کےقاتلوں کی نشاندہی پر رکھے گئے 50 ملین سویڈش کرونا کے انعام بارے بتایا اور ڈیل کی پیشکش کی کہ اگر وہ تعاون کریں، تو سویڈن انہیں مقدمے سے تحفظ دے سکتا ہے۔

جنوبی افریقی ملٹری انٹیلی جنس حکام سے ملاقات

صحافی نے بتایا کہ اس بات چیت کے اگلے روز جنوبی افریقہ کی ملٹری انٹیلی جنس کے ایک افسر نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنے جنرل سے خفیہ ملاقات پر بلایا، مجھے یکم اکتوبر 2015 کو جوہانسبرگ کے حیات ہوٹل میں پہنچنے کیلئے کہا گیا، جہاں سے مجھے ایک قریبی خالی ریستوران لے جایا گیا، یہیں میری  جنرل سے ملاقات ہوئی۔

جنوبی افریقی حکام کی شرائط

اموگن نے کہا کہ جنرل صاحب نے مجھے بغیر بات گھمائے پالمے کے قاتلوں کے نام بتادئیے اور کہا کہ جنوبی افریقہ سچ تک پہنچنے میں سویڈن کی مدد کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے بدلے ہم سویڈن سے مضبوط تعلقات چاہتے ہیں۔

جنرل نے شرط رکھی کہ اس کے ساتھ سویڈن کو ان تمام افراد کو قانونی کارروائی سے تحفظ دینے کا اعلان کرنا ہوگا، جنہوں نے جنوبی افریقہ کی  سابقہ حکومت کی ہدایت پر اس منصوبے کو مکمل کیا۔

جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ پالمے کے قتل میں سیاسی اور معاشی دونوں معاملات ہوسکتے ہیں، سیاسی تو معاملہ واضح تھا کہ پالمے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف تھے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ کی ملٹری انٹیلی جنس اپنے سویڈش ہم منصب ادارے کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کیلئے تیار ہے، لیکن سیاستدانوں اور میڈیا کو اس سے دور رکھنا ہوگا، اس پر ہمارا اتفاق ہوگیا، لیکن میں نے واضح کیا کہ بالاخر یہ معاملہ سویڈش عوام اور پالمے کے خاندان کے سامنے آئے گا۔

صحافی نے بتایا کہ جنرل اس بات پر حیران تھا کہ یہ تحقیقات میں شوق سے کررہا ہوں اور انہوں نے مجھے خبردار کیا کہ اس کا انجام میری موت کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے،کیوں کہ پالمے کے قاتلوں کو خطرہ محسوس ہوا تو وہ  مجھے بھی مارسکتے ہیں۔

برطانوی صحافی کے مطابق اس نے نومبر 2015 میں  یہ دستاویزات سویڈن کی نیشنل انٹیلی جنس کے حوالے کردیں، جو انہوں نے آگے پولیس کو دے دیں، اگلے دو برس تک خاموشی رہی۔

اموگن نے بتایاکہ اپریل 2018 میں اس نے کیس کے نئے پراسیکیوٹر کرسٹر پیٹرسن سے ملاقات کی، انہیں اپنی تحقیقات سے آگاہ کیا، جو وہ پہلے سے جان چکے تھے۔

پراسکیوٹر نے مجھے کہا کہ جنوبی افریقہ کے جنرل کو بتادیں کہ وہ ان سے ملنے کے لئے جوہانسبرگ جانے کو تیار ہیں، میں اس جنرل سے رابطے میں کامیاب نہ ہوسکا، لیکن جون میں انہیں کسی اور افسر کے ذریعہ پیغام پہنچادیا۔

اس کے بعد پھر خاموشی چھاگئی، اب چند ہفتے قبل  جنوبی افریقہ کے ایک انٹیلی جنس افسر نے بتایا کہ دونوں حکومتوں کے نمائندوں کے درمیان 18 مارچ کو پریٹوریا میں ملاقات ہوگئی ہے۔

اس کے ساتھ ہی سویڈن کے پراسیکیوٹر آفس نے اعلان کیا ہے کہ وہ مجرمانہ تفتیش کے نتائج بدھ کی صبح ایک پریس کانفرنس میں پیش کریں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ پالمے کے قتل میں جنوبی افریقہ کی سابق نسل پرست حکومت ہی ملوث نکلی ہے، جس کا سراغ اس صحافی نے برسوں کی محنت  کے بعد لگایا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.