یونان میں پھنسے مہاجرین کے حوالے سے جرمنی کیا فیصلہ کرنے جارہا ہے

0

برلن: کیا 2015 کے مہاجرین کے بحران کے دوران لاکھوں تارکین وطن کیلئے دروازے کھول کر ان سے ’’ماں‘‘ کا  خطاب پانے والی جرمن چانسلر انجیلا مرکل ایک بار پھر کچھ ایسا کرنے جارہی ہیں، جو مہاجرین کیلئے ان کی ہمدردی کو امر کردے گا؟،اس بات کا جواب بدھ کو سامنے آنے کا امکان ہے۔

جب جرمن کابینہ کا اجلاس منعقد ہوگا، تاہم جرمن چانسلر کے ترجمان نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ان کا ملک یونان کے جزیرہ لیسبوس میں پھنسے مہاجرین کیلئے کچھ کرنے جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی  کم عمر اور تنہا مقیم 400 افراد کو یورپ منتقلی پر اتفاق کیا تھا، جس میں سے سب سے زیادہ 150 جرمنی قبول کررہا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ یہ پہلا قدم ہے، اور یونانی جزیرے پر مقیم 12 مہاجرین کی تکالیف کم کرنے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں حکومت مشاورت کررہی ہے کہ جرمنی کس طرح  ان کی مدد کرسکتا ہے۔

خواتین و بچوں کی جرمنی منتقلی کا اشارہ

جرمن چانسلر کے ترجمان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تنہا مقیم کم عمر افرا د کے بعد اب ہماری توجہ کا مرکز وہ خاندان ہیں، جو بچوں کے ساتھ یونانی کیمپ میں مقیم ہیں، اس سے پہلے جرمن وزیرداخلہ ہارسٹ شیفر نے بھی کہا تھا کہ یونانی کیمپ سے خواتین و بچوں کو جرمنی لایا جاسکتا ہے، جرمنی کے سب سے بڑے اخبار Bild daily نے بھی حکومتی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ چانسلر انجیلا مرکل سینکڑوں بلکہ ہزاروں بچوں اور ان کے خاندانوں کو جرمنی میں خوش آمدید کہنے کیلئے تیار ہیں، جرمن میڈیا کے مطابق اس حوالے سے بدھ کو فیصلہ سامنے آسکتا ہے، جب کابینہ کا اجلاس ہوگا۔

جرمن وزیرخزانہ اور وائس چانسلر اولف شولز نے بھی کہا ہے کہ یورپی یونین کے سب سے بڑے ملک اور معاشی پاور ہاؤس   ہونے کی وجہ سے جرمنی کو یونانی کیمپ میں پھنسے مہاجرین کے حوالے سے ٹھوس اقدام اٹھانا ہوگا۔ انہوں نے کہا  کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کسی معاہدہ پر پہنچ جائیں گے، تاہم انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کو مہاجرین کے بحران پر متفقہ ردعمل دینا چاہئے، یہی وقت کی ضرورت ہے۔

جرمن عوام بھی مہاجرین کے استقبال کیلئے تیار

اگرچہ 2015 کے مہاجرین بحران کے بعد کچھ جرمن شہریوں میں مخالفانہ جذبات پیدا ہونے کا معاملہ سامنے آیا تھا، تاہم یونان کے موریہ کیمپ میں آگ لگنے کے بعد پیدا صورتحال میں جرمنی کی این جی اوز اور مختلف شہروں کے مئیرز سب سے زیادہ فکرمند نظر آرہے ہیں اور10 سے زائد علاقائی سربراہان کی جانب سے مرکزی حکومت سے یہ مطالبہ کیا جاچکا ہے کہ وہ ان مہاجرین کیلئے کچھ کرے، کچھ  مئیر اور علاقائی سربراہان نے تو اپنے علاقوں میں مہاجرین کو قبول کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.