تارکین کو روکنے کیلئے یورپی ملک نے فوج بلانےکا اعلان کردیا
برسلز: الٹی ہوگئیں ، سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا، یورپی ملک کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کے لئے کئے گئے سارے اقدامات ناکام ہوگئے ، جس کےبعد تارکین کو روکنے کے لئے فوج کی مدد لینے کا اعلان کردیا گیا ہے، جبکہ تارکین کو افریقی ممالک منتقل کرنے کا بھی اشارہ دیا گیا ہے۔
دوسری طرف کچھ رہنماوں نے فوج کی مدد کےفیصلے پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تارکین کو روکنے کیلئے فوج استعمال کرنے کا فیصلہ پڑوسی یورپی ملک کے ساتھ تنازعہ کا سبب بن سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بریگزٹ کے بعد فرانس سے برطانیہ جانے والے تارکین میں بڑا اضافہ ہوا ہے، اور گزشتہ بر س28 ہزار سے زائد تارکین غیر قانونی طریقے سے کشتیوں کے ذریعہ برطانیہ پہنچے ہیں، جبکہ سخت سردی اور خراب موسم کے باوجود رواں برس کے پہلے ماہ کے 18 دنوں میں ہی مزید سینکڑوں تارکین انگلش چینل پار کرکے برطانیہ پہنچ چکے ہیں، جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں، بریگزٹ کےبعد برطانیہ ان تارکین کو واپس فرانس یا دیگر یورپی ممالک ڈی پورٹ کرنے کا حق بھی کھو چکا ہے، جس سے برطانیہ کی پریشانی بڑھ گئی ہے، ایسے میں اب غیرقانونی تارکین کو روکنے کے حوالے سے سخت موقف کی حامل برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے تارکین کو روکنے کیلئے فوج کے استعمال کا اعلان کردیا ہے، پریتی نے پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ انگلش چینل کو غیرقانونی تارکین لانے والی کشتیوں سے بچانے کے لئے وزارت دفاع سے رابطہ کرلیا گیا ہے، اور آئندہ چند ہفتوں میں فوج اس عمل میں شامل ہوجائے گی۔
انہوں نے کہ کوئی محکمہ تنہا غیرقانونی تارکین کی یلغار روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس لئے وزارت دفاع کی شمولیت ضروری ہوگئی ہے، تاکہ ہم اپنی سرحدوں کو غیر قانونی آمد سے محفوظ رکھ سکیں، انہوں نے کہا کہ فرانس سے انگلش چینل کے ذریعہ برطانیہ کی طرف آنے والی کشتیوں کا رخ واپس موڑنے کے لئے بھی کام کیا جارہا ہے، اور اس کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی جاری ہے۔
برطانوی وزیرداخلہ نے کہا کہ سیاسی پناہ کے طلب گاروں کو کسی تیسرے افریقی ملک یا ممالک میں منتقل کرنے کا آپشن بھی زیر غور ہے، مختلف ملکوں سے بات چیت جاری ہے، واضح رہے کہ اس حوالے سے برطانیہ میں گیمبیا کا نام زیر گردش ہے، دوسری طرف حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن اور دفاعی کمیٹی کے چئیرمین ٹوباس ایل وڈ نے تارکین کو روکنے کیلئے فوج استعمال کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے، اور کہا ہے کہ فوج پہلے ہی بہت مصروف ہے،انہوں نے اس کیلئے روسی فوج کی یوکرائن کی سرحد پر موجودگی ، اور چین کی جارحانہ پالیسی کا حوالہ دیا، اپوزیشن لیبرپارٹی کی رکن اور شیڈو وزیر دفاع یووٹ کوپر نے بھی کہا کہ حکومت بحریہ کو تو پہلے ہی 2019 سے استعمال کررہی ہے، تاہم بھاری اخراجات کے باوجود بحریہ کے دو جہاز جو اس کام پر مامور ہیں، وہ تارکین کو روکنے میں ناکام ہیں،نئے فیصلے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا،
انہوں نے کہا کہ تارکین کی آمد روکنے کیلئے حکومت فرانس کے ساتھ سنجیدہ بات چیت میں ناکام رہی ہے، تارکین کو انگلش چینل میں واپس دھکیلنے یا کسی افریقی ملک منتقل کرنے کے عمل میں بہت سے خطرات پوشیدہ ہیں، اگر برطانوی بحریہ کے جہاز تارکین کے تعاقب میں غلطی سے فرانسیسی سمندر میں چلے گئے ، تو اس سے کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے،