ڈنکی کی کوشش میں وزیرآباد کے خاندان کا المناک انجام

0

گوجرانوالہ: ڈنکی لگا کر یورپ جانے کی کوششش کا المناک انجام، انسانی اسمگلر سفر شروع ہوتے ہی دھوکہ دے گیا اور ایک ہی خاندان کے تین نوجوان سسک سسک کر راستے میں دم توڑ گئے، متاثرہ خاندان کے کئی افراد کی غم سے حالت  بھی غیر ہوگئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ڈنکی لگاکر یورپ جانے کی کوشش کرنے والا ایک گروپ ایران، ترکی یا کسی اور ملک نہیں بلکہ پاکستان کی حدود میں ہی المناک انجام کا شکار ہوگیا، اور ایک خاندان کے تین نوجوان اپنی جان سے چلے گئے۔ وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے 7 نوجوانوں کا یہ گروپ ایران اور ترکی کے راستے یورپ جانے کے لئے روانہ ہوا تھا۔ بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی سے ایران داخل کرانے کے لئے سعید نامی اسمگلر کی ان سے گیارہ ہزار فی بندہ بات طے ہوئی تھی۔ اسمگلر نے ان ساتوں افراد کو اپنے بھائی کے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہ یہ انہیں ایران پہنچادے گا۔ لیکن کچھ گھنٹے ویران علاقہ میں سفر کے بعد اسمگلر نے گاڑی رکوا دی اور ان ساتوں افراد سے مطالبہ کیا کہ وہ فی کس ساڑھے تین لاکھ اسے دیں۔ اس کے بغیر وہ انہیں ایران نہیں لے جائے گا۔ وزیر آباد کے نوجوانوں نے کہا کہ وہ ان سے گیارہ ہزار فی بندہ پر بات پہلے طے کرچکا ہے۔ وہ اسے اتنی رقم نہیں دے سکتے۔ جس پر اسمگلر سعید نے گاڑی کے ڈرائیور جو اس کا اپنا بھائی ہی تھا، سے کہا کہ انہیں گاڑی سے اتار دے۔

یوں وزیرآباد کے ان بدنصیب نوجوانوں سے دھوکہ کرکے اسمگلر سعید نے انہیں ویران علاقہ میں گاڑی سے اتار دیا۔ اور انہیں پانی و خوراک بھی نہیں دی۔ یہاں ان نوجوانوں سے بھی غلطی ہوگئی۔ اگر وہ گاڑی سے اترنے سے انکار کردیتے، تو شائید ان کی جانیں بچ جاتیں۔ اسمگلر سعید ان ساتوں نوجوانوں کو ویرانے میں اتار کر چلا گیا۔

گروپ کے زندہ بچ جانے والے فرد رانا عرفان نے بتایا ہے کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کریں۔ کسی آبادی یا انسان کی تلاش میں انہوں نے پیدل چلنا شروع کیا۔ لیکن کہیں کسی آبادی کے آثار نہیں تھے۔ وہ دو دن چلتے رہے۔ اس دوران پانی نہ ملنے سے ان کا بھائی سجاد، بھتیجا حافظ محمد بلال اور کزن خلیق الرحمن نے ایک ایک کرکے سسک سسک کر جان دے دی۔ سجاد اور حافظ بلال کی تو لاشیں بھی انہیں وہیں چھوڑنی پڑگئیں۔ جبکہ کزن خلیق الرحمن جو آخر میں فوت ہوئے، جب اسمگلرز کے ایک گروپ نے انہیں دیکھ کر بچایا، ان کی لاش وزیرآباد لائی گئی جہاں خاندان نے تدفین کی ہے۔

رانا عرفان کا کہنا ہے کہ ان سمیت باقی چاروں افراد کی حالت بھی پیاس اور بھوک سے غیر ہوچکی تھی۔ اگر اسمگلرز کے گروپ کی نظر ان تک نہ پڑتی تو ان کا بچنا بھی مشکل تھا۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ان کے بھائی اور بھتیجے کی لاشیں نوکنڈی سے تلاش کرکے ان کے حوالے کی جائیں، تاکہ لاشوں کی خود تدفین کرسکیں اور غم سے نڈھال ان کے خاندان کو کچھ سہارا مل سکے۔ دوسری طرف نوکنڈی کے تحصیلدار ہاشم کرد کا کہنا ہے کہ ایک لاش ملی ہے۔ جسے دیہی صحت مرکز لایا گیا ہے۔ یہ لاش حافظ بلال کی بتائی جارہی ہے۔ جبکہ سجاد کی لاش کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.