ایک ملک کا صدر بھی انسانی اسمگلر قرار، پریشان یورپی رہنماؤں کا پابندیوں کا انتباہ

0

برلن: یورپی یونین کے ساتھ کشیدگی مزید بڑھ گئی، یورپی رہنماؤں نے غیر قانونی تارکین وطن کو یورپ کا راستہ دکھانے والے ایک ملک کے حکمران کو انسانی اسمگلر قرار دے دیا ہے، جبکہ اس ملک تک تارکین کو لانے والی ائرلائنز پر بھی پابندیاں لگانے کا انتباہ کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق بیلاروس کی جانب سے یورپی یونین کے ساتھ کشیدگی کے بعد تارکین کو یورپ کا رخ کرنے کی سہولت کاری فراہم کی جارہی ہے، اور اس نئے روٹ سے آنے والے تارکین جرمنی کا زیادہ رخ کررہے ہیں، جس پر جرمن حکومت تشویش کا شکار ہے، جرمنی نے اب غیرقانونی تارکین کو روکنے کے لئے پولینڈ کو اہلکار فراہم کرنے کی پیش کش کردی ہے، پولینڈ پہلے ہی بیلاروس کی سرحد پر 6 ہزار سے زائد اہلکار تعینات کرچکا ہے، جرمنی کا کہنا ہے کہ و ہ سرحد کی مزید موثر نگرانی کیلئے پولینڈ میں اہلکار بھیجنے کو تیار ہے، جہاں روزانہ سرحد پار کرنے کی سینکڑوں کوششیں کی جارہی ہیں، جرمن وزیر داکلہ ہرسٹ شوفر نے اس حوالے سے پولش ہم منصب کو خط لکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یورپ داخلے کے خواہشمند تارکین دو ملکوں کے درمیان پھنس گئے، حالت خراب

بیلاروس کے ساتھ واقع ایک اور یورپی ملک لتھوانیا نے یورپی یونین سے بیلاروس کی ائرلائن پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ یورپی رہنما بیلاروس کے صدر کو انسانی اسمگلر کا خطاب بھی دے رہے ہیں۔ اس صورت حال سے جرمنی سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے، جہاں اب تک اس روٹ سے 5 ہزار سے زائد تارکین پہنچ چکے ہیں۔

ان میں سے 3 ہزار تو صرف رواں ماہ اکتوبر میں پہنچے ہیں۔ جرمن وزیرداخلہ ہرسٹ شوفر نے بیلاروس کے صدر کو انسانی اسمگلر قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ تارکین کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں، دوسری طرف بیلاروس یورپی یونین کو پریشان کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تارکین کو اپنے ملک ویزا فری آنے کی اجازت دے رہا ہے، تاکہ وہ یورپ کا رخ کریں، بیلاروس نے ویزا فری ممالک کی تعداد 76 کردی ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد یہاں پہنچ کر پولینڈ کی سرحد کا رخ کررہے ہیں، جن کی تعداد 15 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پورپی ملک کی سرحد پر پھنسے تارکین کو پراسرار گولیاں کھلانے کا انکشاف

اس صورت حال میں جرمن وزیرداخلہ نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ ایسی ائرلائنز کیخلاف پابندیاں لگائے ، جو بیلاروس حکومت کے ہاتھوں استعمال ہوکر تارکین کو دوسرے ملکوں سے وہاں پہنچارہی ہیں،

Leave A Reply

Your email address will not be published.