اسپین میں نئے تارکین سے پرانوں کی لاٹری لگ گئی
میڈرڈ: مراکش سے دوہفتے قبل اسپین داخل ہونے والے 8 ہزار سے زائد تارکین کی اکثریت تو واپس ڈیپورٹ کردی گئی ہے، تاہم کم عمر لڑکے ڈیپورٹ نہیں کئے جاسکے، اور ان کی وجہ سے سینٹر بھر گئے ہیں، جس کے بعد سینٹر میں مقیم پرانے تارکین کی لاٹری لگ گئی ہے۔
اور انہیں حکومت نے اسپین کے مرکزی علاقے میں منتقل کرنا شروع کردیا ہے، تفصیلات کے مطابق دو ہفتے قبل مراکش کی جانب سے رکاوٹیں ہٹانے پر 8 ہزار کے قریب تارکین اسپین داخل ہوگئے تھے، جس کے بعد اسپین کی حکومت کو مراکش سے ملحقہ جزیرہ نما علاقے Ceuta میں فوج تعینات کرنی پڑگئی تھی، ان تارکین کی اکثریت تو اسپین کے حکام واپس مراکش بھیجنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، تاہم 18 سال سے کم عمر کے 1200 بچوں کو ہسپانوی قانون کے تحت واپس نہیں بھیجا جاسکتا، البتہ ان کے لئے بھی ہسپانوی حکام نے کوشش کی کہ ان کے مراکش میں موجود والدین سے رابطہ کراکے انہیں رضاکارانہ واپسی کیلئے تیار کیا جاسکے، تاہم 800 سے زائد تارک وطن بچے پھر بھی Ceuta میں رہ گئے، ان بچوں کی وجہ سے Ceuta میں قائم تارک وطن بچوں کے سینٹر میں جگہ کم پڑگئی ہے، اور صورتحال سے نمٹنے کے لئے پہلے سے سینٹر میں مقیم 200 تارک وطن بچوں کو اسپین کے مرکزی علاقوں میں منتقل کیا جارہا ہے، اسپین کی سماجی حقوق کی وزیر Ione Belarra کا کہنا ہے کہ جن بچوں کو مرکزی علاقوں میں منتقل کیا جارہا ہے، یہ اکیلے اسپین داخل ہوئے تھے ، اور یہ موجودہ بحران سے قبل کے Ceuta پہنچے ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بچے واپس مراکش میں اپنے والدین کے پاس جانا چاہتے ہیں، ان میں سے بیشتر کو بیوقوف بناکر اسپین بھیجا گیا ، اور یہ کہا گیا کہ وہ گھومنے پھرنے جارہے ہیں۔ دوسری طرف Ceuta میں پہنچنے والے بچوں میں ٹین ایجر کے ساتھ 6 سے 7 برس کے کم عمر بچے بھی شامل ہیں، مقامی حکام کے مطابق اب تک ان تارکین کی تعداد کا درست اندازہ نہیں ، کیوں کہ ان میں سے متعدد اب بھی گلیوں میں سورہے ہیں، تاکہ پولیس سےبچ سکیں، علاقے کی فلاحی تنظیم Caritas کے ڈائریکٹر Manuel Gestal کا کہنا ہے کہ کچھ تارکین تو پہاڑیوں میں چھپے ہوئے ہیں، ہمارے رضاکار روز تارک وطن بچوں کو تلاش کرنے نکلتےہیں، تاکہ ان کی مدد کی جاسکے، ہم انہیں خوراک اور بستر دے رہے ہیں، کپڑے فراہم کررہےہیں، اور انہیں سمجھاتے ہیں کہ اپنے آپ کو حکام کے پاس رجسٹر کرائیں، ہم ان کے لئے اتنا ہی کرسکتے ہیں۔