توہین رسالت کے ملزم کو قتل کرنے والے غازی فیصل کا ہر جگہ والہانہ استقبال، عالمی میڈیا کا واویلا

0

پشاور: توہین رسالت کے ملزم طاہر احمد نسیم کو کمرہ عدالت میں قتل کرنے والے غازی فیصل خالد خان کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی سیلفی اور ہر جگہ ہونے والے والہانہ استقبال پر عالمی میڈیا واویلا کرنے لگا، ایلیٹ اسکواڈ کی فیصل کے ساتھ سیلفی میں سب کی مسکراہٹ نے توہین رسالت کے ملزم کی حامی موم بتی مافیا کو آگ لگادی ہے، سوشل میڈیا پر ہزاروں افراد غازی فیصل خالد کی تصویر شیئر کر کے انہیں خراج تحسین اور پولیس اہلکاروں کے بہتر برتاؤ پر خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دئیے۔

تفصیلات کے مطابق ماضی کی طرح عالمی میڈیا نے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور اسلام دشمن عناصر کے حق میں مہم شروع کردی ہے، غازی فیصل خالد خان کے ہر جگہ والہانہ استقبال پر جہاں عالمی میڈیا کی جانب سے راگ الاپا جا رہا ہے وہیں گزشتہ روز سوشل میڈیا پر پشاور پولیس کے ایلیٹ اسکواڈ کی ایک سیلفی وائرل ہے۔

تصویر ایک پولیس وین کی ہے جس میں سات پولیس اہلکاروں کے بیچ سفید لباس اور سر پر سفید ٹوپی پہنے نوجوان غازی فیصل کیمرے کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے جبکہ دیگر اہلکاروں کے چہروں پر مسکراہٹ ہے تاہم عشق رسول ﷺ سے سرشار ان اہلکاروں اور غازی فیصل کی مسکراہٹ نے عالمی میڈیا کو آگ لگا دی ہے۔

بھارتی خبر رساں ادارے نے پشتون تحفظ نامی غدار وطن ٹولے کی سرگرم کارکن گلالئی اسماعیل کا ٹوئٹ شیئر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ عدالت میں وکلا کے بعد پولیس اہلکار بھی طاہر نسیم کو مارنے والے فیصل خالد کے ساتھ خوشی میں تصویر بنا رہے ہیں۔ گلالئی نے اسے عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی سے تشبیہ دی۔

واضح رہے کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر وحشیانہ مظالم کے خلاف بولنے میں گلالئی سمیت پوری پشتون تحفظ موومنٹ کے تمام رہنماؤں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ مزید برآں معاذ ناز نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ یہ دنیا کا پہلا قیدی ہو گا جس کے ساتھ سیلفی بنانے پر پولیس اہلکار بھی فخر محسوس کر رہے ہیں۔ 

ایک اور صارف ابراہیم محمد کہتے ہیں کہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے عاشقوں کے لیے ہر عام و خاص کے دل محبت، احترام اور ادب سے بھر دئیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیصل خالد کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار انکے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے فخر محسوس کررہے ہیں۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے لکھا کہ غازی فیصل خالد کی تصویروں اور ہر جگہ والہانہ استقبال نے پولیس کانسٹیبل ممتاز قادری کی یادیں تازہ کر دی ہیں جن کا ہر پیشی کے موقع پر پھولوں کی پتیاں نچاور کر کے استقبال کیا جاتا تھا، ہر کوئی ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتا اور اُن کا ماتھا چومتا تھا۔

ادھر برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے غازی فیصل خالد کے خلاف کئے گئے ٹوئٹس کی ہی شیئر کیا گیا جبکہ ان کے حق میں کئے گئے لاکھوں ٹوئٹس اور سوشل میڈیا پر کئے گئے تبصروں کو جگہ نہ دی گئی۔

بی بی سی کے مطابق سماجی کارکن ندا کرمانی کہتی ہیں یہ پولیس افسران ریاست میں پیدا ہونے والے تضادات کو واضح کرتے ہیں، ایک طرف ان سے قاتل جیسا برتاؤ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس ذہنیت کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جو اس قتل کا باعث بنی۔

وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری کہتی ہیں ’کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی کچھ نہیں بدلے گا، ان افراد کا کام ’سکیورٹی‘ اور امن و امان برقرار رکھنا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ وہ کسی اور ہی چیز پر ایمان رکھتے ہیں۔

توصیف نامی صارف کہتے ہیں ’اگر امن و امان کے رکھوالے کسی (مبینہ) قاتل کی ایسے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تو پھر یہ بات عیاں ہے کہ ہم بحیثیت قوم برباد ہو چکے ہیں۔

ناصر احمد کہتے ہیں ’ممتاز قادری کے بعد پاکستان کا ایک اور (مبینہ) قاتل ہیرو ’غازی خالد‘۔۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں دنیا میں کوئی اور قوم ایک قاتل کی اتنی حمایت نہیں کرتی ہو گی۔

دوسری جانب اے ایس عوان کہتے ہیں کہ 14 سالہ بچے کو اللہ نے کیا شان دی ہے، کیا عالم، کیا وکیل، کیا پولیس ہر ایک ان کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں، ملنے کے لیے بے تاب ہیں، ساتھ سیلفی کھینچنے کے لیے بے تاب ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.