مطیع اللہ جان کو کس نے اغواء کیا، کہاں لے جایا گیا، آرمی کا رویہ کیسا تھا؟، مطیع اللہ جان نے سب بتادیا

0

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دن دیہاڑے اغواء اور پھر بازیاب ہونے والے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے ساتھ کیا ہوا، انہیں کیسے پکڑا گیا، کہاں لے جایا گیا، اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟، انہوں نے سب بتادیا۔

تفصیلات کے مطابق صحافی مطیع اللہ جان نے اسلام آباد پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروادیا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ 21 جولائی بروز منگل وہ اپنی اہلیہ کو اسکول چھوڑنے (جو کہ اسلام آباد کے ایک اسکول میں اسپورٹس ٹیچر ہیں) کے بعد قریب ہی ایک درخت کے نیچے گاڑی کھڑی کرکے کچھ کاغذات کا مطالعہ کرنے لگا کہ تقریبا 11 بجے ایک سفید ڈبل کیبن گاڑی جس پر پولیس لائٹس لگی ہوئی تھیں، اچانک سے میرے سامنے آکر رکی، اس میں سے ماسک پہنے ایک شخص باہر نکلا اور میری گاڑی کی ڈرائیونگ کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول کر مجھے زبردستی باہر نکالا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ اس دوران اسلام آباد پولیس کے انسداد دہشتگردی اسکواڈ کی وردی میں اور کچھ سول کپڑوں میں ملبوس مسلح اور غیر مسلح آٹھ سے دس افراد دوسری گاڑیوں میں سے نکلے اور مجھے زدو کوب کرنے لگے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ان افراد نے زبردستی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی جس پر میں نے مزاحمت کی،اور پوچھا میرا جرم کیا ہے، میری گرفتاری کے وارنٹ کہاں ہیں، مگر کوئی جواب نہ ملا۔

اس دوران میں نے اپنا موبائل فون دیوار کے اوپر سے اسکول کے اندر پھنک دیا تاکہ وہاں موجود اپنی اہلیہ کی توجہ اس طرف دلائی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشتگردی اسکواڈ کی وردی میں ملبوس افراد گاڑی میں میرے دائیں اور بائیں جانب بیٹھ گئے اور میرا چہرہ گاڑی کے فرش کی جانب کردیا،ان افراد نے میرے ہاتھ ہتھکڑی سے باندھ دیے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر میرے چہرے پر کالا کپڑا ڈال دیا۔

مطیع اللہ جان نے کہا کہ میں نے پانی مانگا جس پر انہوں نے گاڑی روک کر بوتل میرے ہاتھ میں پکڑا دی اور تھوڑی دیر بعد ایکہ جگہ گاڑی روکی گئی اور مجھے جیل نما کمرے میں پھینک دیا گیا، جہاں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ جب کمرے سے باہر گئے تو میں نے پٹی ہٹا کر دیکھا تو مجھے وہ پولیس یا ایف آئی اے کا تھانہ لگا، کچھ دیر بعد وہ کمرے میں آئے اور زدوکوب کرنے لگے کہ آنکھوں سے پٹی کیوں ہٹائی، انہوں نے میری آنکھوں پر پھر پٹی باندھ دی۔

انہوں نے کہا کہ میں ان افراد سے پوچھتا رہا کہ میرا قصور کیا ہے؟،مجھے کیوں اٹھایا گیا ہے لیکن کوئی جواب نہیں دیا جاتا صرف یہ کہا جاتا کہ ٹائم نشتہ۔

مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ میں ان سے گزارش کرتا رہا کہ میری اہلخانہ کو میری خیریت کے بارے میں اگاہ کر دیا جائے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید اپنے بیان میں بتایا کہ ایک بار پھر مجھے گاڑی میں بیٹھا کر لے جایا گیا اور میں پانی مانگتا رہا لیکن مجھے نہ دیا گیا۔

مجھے غلطی سے اٹھایا گیا

صحافی مطیع اللہ جان نے اپنے بیان میں لکھا کہ انہیں ایک جگہ اتار کر لیٹا دیا گیا اور پھر مجھ سے پشتو میں میرا نام پوچھا گیا جس پر میں حیران ہوا کہ اتنی دیر بعد میرا نام کیوں پوچھا جارہا ہے، میں نے اپنا نام بتایا کہ میں مطیع اللہ جان ہوں جس پر مجھ سے پوچھا گیا کہ تم زرک خان نہیں؟ اور یہ ظاہر کیا گیا کہ جیسے غلط بندہ لے آئے ہیں۔

انہوں نے بیان میں لکھا کہ اس شخص نے اپنے ساتھی سے بظاہر یہ کہا کہ یہ تو غلط بندہ لے آئے ہیں، تو میں نے خوشی میں ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور قسم اٹھا کر کہا کہ میں مطیع اللہ جان ہوں اور میں نے ایک بار پھر پانی مانگا، جس پر اس شخص نے بوتل میرے منہ پر دے ماری۔

انہوں نے بتایاکہ اس کے بعد میرہ ہتھکڑی کھولی گئی اور میرے سر پر کسی سخت چیز کی ضرب لگائی گئی، اور میں نے خود کو بے ہوش ظاہر کردیا، جب مجھے محسوس ہوا کہ وہ افراد جاچکے ہیں تو میں اٹھا اور سڑک پر پہنچ کر گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن کوئی گاڑی نہ رکی، مجھے کچھ آگے جاکر ایک بورڈ نظر آیا جسے میں نے گاڑیوں کی لائٹس کے ذریعے دیکھنے کی کوشش کی ، وہ محکمہ زراعت پنجاب کا بورڈ تھا۔

پاک فوج کا رویہ

جس کے بعد میں نے دوبارہ چلنا شروع کردیا تھوڑا آگے جانے کے بعد مجھے پاک آرمی کی چیک پوسٹ نظر آئی، جس کے باہر کچھ ٹرک کھڑے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں موجود فوجی جوان کو میں نے اپنا تعارف کروایا، انہوں نے مجھے وہاں موجود کرسی پر بٹھا دیا۔

کچھ ہی دیر بعد مسافر ویگن اور کار معمول کی چیکنگ کیلئے رکی تو میں نے انہیں اپنا تعارف کروایا اور ایمرجنسی کال کیلۓ ان سے موبائل فون مانگا، ان میں سے چند افراد گاڑی سے اتر آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ آپ وہی صحافی ہیں جس کے لاپتہ ہونے کی خبریں ٹی وہ پر چل رہی ہیں۔

جس پر میں نے انہیں ہاں کہا تو ایک مسافر جس نے اپنا نام عثمان بتایا نے مجھے موبائل فون دیا، جس سے میں نے اپنے بھائی کو کال کی، میرے بھائی نے کہا کہ آپ وہی رکیں میں لینے آرہا ہوں۔

انہوں نے بتایاکہ کچھ دیر بعد سینئر فوجی اہلکار آئے اور مجھ سے چائے، پانی کا پوچھا، جس پر میں نے انہیں پانی کی بوتل دکھائی اور کہا کہ میں نے چائے بسکٹ کھا لیے ہیں، مجھے بھوک نہیں۔

مطیع اللہ جان نے کہا کہ فوجی افسران نےمجھے گھر پہنچانے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی ایک ویگو گاڑی بھی ڈرائیور کے ساتھ بھیج دی، جس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے کہا کہ میرے بھائی راستے میں ہیں وہ مجھے لینے آرہے ہیں۔

میرے بھائی قریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد وہاں پہنچے، فوجی حکام نے ضروری تصدیق کے بعد ہمیں جانے کی اجازت دے دی۔

مجھے اغواء کرنے کا مقصد منہ بند رکھنے کا پیغام دینا تھا

انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں ک میرے ساتھ جو بھی کچھ ہوا اس کا تعلق براہ راست سپریم کورٹ میں جاری توہین عدالت کیس سے ہے، جس میں پیشی سے ایک دن پہلے مجھے اغواء کر کے اپنا منہ بند رکھنے کا پیغام دیا گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.