گورے سیاحوں کے بعد افریقی طلبا بھی بھارت سے بددل ہوگئے، بائیکاٹ کی اپیل 

0

دہلی :گورے سیاحوں کے بعد  افریقی طلبا بھی  بھارت سے متنفر ہوگئے، نسلی امتیاز کا نشانہ بننے والےافریقی طلبانے بھارت میں داخلے نہ لینے کا مشورہ دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق بھارت کی ریاستی پالیسی نے غیر ملکی طلبہ کو بھی پریشانی میں  مبتلا کردیا ہے،حکومتی پالیسی کے اثرات  نیچے  تک  منتقل ہوچکے ہیں اور   ہندو انتہا  پسندی کی لہر  نسل پرستی  کا بھی احاطہ کررہی ہے۔

افریقی نسل کے طلبہ خاص طور پر اس نسلی امتیا زکا شکار بن رہے ہیں،وہ طلبا جو بھارت کے بارے میں نہ جانے کون کون سے سپنے سجائے وہاں تعلیم حاصل کرنے پہنچتے  ہیں،ان کے سارے خواب اس وقت چکنا چور ہوجاتے ہیں۔

نسل پرستی کا شکار بھارتی انہیں  سیاہ رنگت کی وجہ سے ’’کالو‘‘کہہ کر پھبتیاں کستے ہیں،اور سرکاری دفاتر اور پولیس بھی انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بناتی ہے۔

نائجیریا کے طالب علم ژوگو نیمڈی لارنس نے بھارتی اخبارسے انٹرویو میں اپنے تجربات شئیر کئے ہیں،اس کا کہنا تھا کہ جب  میں بھارت آرہا تھا ،تو بہت خوش تھا کہ گاندھی کے ملک جارہا ہوں،طیارہ لینڈ کرتےوقت  میں بھارتی میوزک اور فلموں کا اسیر تھا، بھارت کاکلچر، زبانوں، کھانوں، اور منتوع معاشرہ کو جاننا چاہتا تھا، مگر بھارت میں داخل ہوتے ہی تمام خواب ٹوٹ گئے،

نائیجرین طالبعلم کا کہنا تھا  میں 3 برس سے بھارت میں ہرروز  نسلی امتیاز کا نشانہ بنتا ہوں، کلاس میں ہوں،محلے میں یا سبزی  لینےجائیں ۔ جہاں  جاؤ وہاں ’’کالو‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے ،لوگ ایسے گھور کر دیکھتے ہیں،جیسے ہم نے کوئی جرم کیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ مجھے دلال، منشیات کا اسمگلر اور نر باز کے القابات سے نواز جاتا ہے،مالک مکان معمول سے زیادہ کرایہ مانگتے ہیں، پولیس بھی کالی رنگت کی بنا پر امتیا زکا نشانہ بناتی ہے،افریقی طلبا پر روز حملے ہوتے ہیں، مارا اور قتل کیاجاتا ہے۔

طالب علم نے بتایاکہ اس کی یونیورسٹی میں گزشتہ برس کانگو سے تعلق رکھنے والے  ایک لڑکے کو  قتل کر دیا گیا تھا،ہمیں اس بے رحمانہ قتل پر احتجاج  تک کی اجازت نہ دی گئی،بھارتی وزارت داخلہ نے دھمکانا شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ روز روز کی بے عزتی سےتنگ آکر ہم نے گھر سے باہر نکلنا تقریباً بند کردیا ہے۔

 نائیجیرین طالبعلم نے کہا کہ میں اپنے ہم وطنوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ  بھارت کا رخ نہ کریں ، بھارت نسلی امتیاز کا گڑھ ہے ،یہ ہم جیسے ’’کالوں ‘‘ کے رہنے کی جگہ نہیں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.