افغانستان میں روس امریکی فوج پر حملے کرواتا رہا، نیو یارک ٹائمز

0

ماسکو: امریکی انٹیلی جنس نے الزام  لگایا ہے کہ روس افغانستان میں طالبان  کو مدد فراہم کرتا رہا ہے اور امریکی فوج پر حملہ کرنے والوں کو انعامی رقوم فراہم کی گئیں، تاہم روس اور طالبان نے امریکی اخبار ’’ نیویارک ٹائمز‘‘ کے ذریعہ سامنے آنے والے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔

امریکی اخبار کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روسی فوجی انٹیلی جنس یونٹ نے طالبان کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے رقم کی پیشکش کی تھی، امریکی انٹیلی جنس عہدیداروں کے مطابق طالبان سے وابستہ جنگجوؤں نے روسی انٹیلی جنس عناصر سے کچھ انعام کی رقم وصول کی تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ کن حملوں کے بدلے انہیں کتنی رقم دی گئی۔

رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کو فروری میں طالبان کے ساتھ  امن معاہدے سے قبل یقین ہوچکا تھا کہ روس افغانستان میں امریکی فوجیوں کو  نشانہ بنانے کیلئے طالبان کو استعمال کررہا ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق روسی فوجی انٹیلی جنس کے ایک یونٹ نے افغان طالبان کے قریبی جنگجوؤں اور جرائم پیشہ افراد میں مالی رقوم تقسیم کیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان معلومات سے آگاہ ہونے کے بعد رواں سال مارچ میں اس معاملے پر اپنے قومی سلامتی کے مشیران کے ساتھ گفتگو کی تھی  جبکہ برطانیہ کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا تھا، کیوں کہ برطانوی فوجی  بھی   روسی ایما پر نشانہ بنائے  جارہے تھے ۔

اخبار کے مطابق اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس نے روس کو سزا دینے کیلئے کئی  تجاویز پر غور کیا، جس میں اقتصادی پابندیاں، سفارتی احتجاج  سمیت  دیگر اقدامات شامل تھے، لیکن 3 ماہ گزرے کے باوجود صدر ٹرمپ اس حوالے سے فیصلہ نہیں کرسکے۔

روس اور طالبان کا موقف

واشنگٹن میں روسی سفارتخانے نے امریکی اخبار کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے اور ان کی مذمت کی ہے، روسی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ اس بے بنیاد رپورٹ سے واشنگٹن اور لندن میں روسی سفارتخانوں کے ملازمین کی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالا گیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا  ہے کہ طالبان کے کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ اس طرح کے تعلقات نہیں ہیں اور امریکی اخبار کی رپورٹ طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ہمارے حملے برسوں سے جاری تھے،تاہم امریکہ  کے ساتھ معاہدے کے بعد  ہم امریکی فوج پر حملے نہیں کررہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.