پیوٹن کے دماغ میں جھانکنے کی امریکی کوششیں
واشنگٹن: پوری مغربی دنیا کو پریشان رکھنے والے روسی صدر پیوٹن کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ ان کی ذہنی کیفیت کیسی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پیوٹن کا ہاتھ ایٹمی بٹن پر ہے۔ اس بارے میں امریکی رہنماؤں اور ماہرین کے اہم تجزیئے سامنے آئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پوری دنیا بالخصوص یورپی ممالک کو پریشان رکھنے والے روسی صدر پیوٹن اس وقت سب کی توجہ کا مرکز ہیں۔ یوکرائن پر حملے کے ان کے فیصلے کے بعد امریکی رہنما اور ماہرین پیوٹن کی ذہنی حالت پر بحث کر رہے ہیں۔ امریکی چینل فاکس نیوز کے مطابق سابق وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس کا کہنا ہے کہ وہ کئی بار پیوٹن سے ملیں۔ روسی صدر محتاط اور سرد مزاج کے ہیں، لیکن اب وہ اس سے مختلف نظر آرہے ہیں، اس وقت پیوٹن کی شخصیت الجھی ہوئی اور بے ترتیب نظر آتی ہے۔ سابق امریکی انٹیلی جنس ڈائریکٹر جم کلیپر کا کہنا ہے کہ انہیں بھی پیوٹن کی ذہنی حالت پر شک ہے، انہوں نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ روسی صدر کا ہاتھ ایٹمی بٹن پر ہے۔ فاکس نیوز کے مطابق پیوٹن پر نظر رکھنے والے سینئر انٹیلی جنس افسران کا کہنا ہے کہ روسی صدر کئی ماہ سے صدارتی محل میں محدود ہیں، اور صرف قریبی مشیروں کی ہی ان تک رسائی ہے، فروری کے اوائل میں جب فرانسیسی صدر نے پیوٹن سے ان کی لمبی ٹیبل پر ملاقات میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو ایسا لگا کہ روسی صدر کچھ سننے کو تیار نہیں ہیں،
بعد میں فرانسیسی صدر نے اپنے عہدیداروں کو بتایا تھا کہ پیوٹن زیادہ سخت اور مغرور نظر آرہے ہیں۔ پیوٹن کے دوست سمجھے جانے والے جمہوریہ چیک کے صدر میلوس زیمن نے بھی یوکرائن پر حملے کے بعد روسی صدر کو پاگل شخص قرار دیا ہے، تاہم دوسری طرف سابق امریکی انٹیلی جنس عہدیدار اور پیوٹن پر کتاب لکھنے والی ربیکا کوفلر کا کہنا ہے کہ روسی صدر کی ذہنی حالت پر شکوک ظاہر کرکے ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ پیوٹن نہ تو پاگل ہے اور نہ کسی ذہنی فریب کا شکار، بلکہ وہ بہت ہوشیاری سے اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پیوٹن کو سنجیدہ نہ لیا تو مزید نقصان ہوسکتا ہے۔ پیوٹن ایک سرد مزاج و سخت گیر آمر ہے، جو بڑا دیکھ بھال کر خطرہ مول لیتا ہے، روسی صدر نے 20 سال سے جو منصوبے بنائے تھے، بڑی ہوشیاری سے ان پر عمل کررہا ہے۔ سابق امریکی انٹیلی جنس عہدیدار کا کہنا تھا کہ پیوٹن کے دماغ میں خلل کی باتیں کرکے ہم اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے پیوٹن کو ان کے عزائم سے روکنے کیلئے موثر حکمت عملی نہیں بنائی۔