دنیا میں کتنے لاکھ وائرسز موجود ہیں؟

0

لندن: ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے انسان کرونا جیسی وبا کی وجہ سے پریشان ہیں، اقوام متحدہ کے تحت جمع ہونے والے سائنسدانوں نے دنیا میں موجود وائرسز کی تعداد اور ان سے انسانوں کو لاحق خطرات کے بارے میں خوفناک رپورٹ جاری کی ہے، رپورٹ کے مطابق انسان وباؤں کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے۔

اور ایک کے بعد ایک وبا انسانوں کے لئے خطرہ بن کر سامنے آسکتی ہے، تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے IPBES کے تحت سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس وقت 17 لاکھ سے زائد وائرسز  دنیا میں موجود ہیں، جو ابھی تک دریافت نہیں کئے جاسکے، ان میں سے آدھے سے زیادہ وائرسز انسانوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور وہ کرونا جیسی نئی وباؤں کا سبب بن سکتے ہیں، 22 عالمی ماہرین پر مشتمل پینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر ہم  نے وائرسز کے انسانوں پر حملے روکنے کے لئے پیشگی اقدامات نہ کئے، تو پھر ہمیں ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نہ کسی وائرس کے حملے کے لئے تیار رہنا چاہئے، جس کا نتیجہ کرونا کی طرح بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور معاشی نقصان کی صورت میں نکلے گا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1918 میں سامنے آنے والے اسپینش فلو سے لے کر اب تک 6 وائرسز انسانوں پر حملہ کرچکے ہیں، واضح رہے کہ اسپینش فلو سے 5 کروڑ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

وائرسز کہا ں سے آتے ہیں؟

سائنسی ماہرین  کا کہنا ہے کہ وائرسز کا ماخذ جنگلی جانور ہیں، دنیا بھر میں تیزی سے جنگلات کاٹے جارہے ہیں، آبادی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے جنگلی جانوروں اور انسانوں کے درمیان فاصلے کم ہورہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں جانوروں سے جراثیم انسانوں میں منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، چوہے اور چمگادڑ انسانوں میں وائرسز کی منتقلی کا بڑا ذریعہ بن رہے ہیں۔

واضح رہے کہ کرونا  کی منتقلی بھی چمگادڑ سے ہونے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سالانہ 5 وائرسز جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہورہے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی وبا کی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ وائرسز سے بچاؤ کے لئے جنگلات کا تحفظ   یقینی بنانے کی ضرورت ہے، اسی طرح جانور پالنے کا رجحان بھی کم کرنا ہوگا، ورکشاب کے چئیرمین پیٹر ڈیسزک کا کہنا تھا کہ ہمیں  وائرسز سے بچنے کے لئے اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے، جانوروں سے فاصلہ رکھنا ہوگا، جنگلات کو بڑھانا ہوگا، ورنہ ہم  یونہی وباؤں کا سامنا کرتے رہیں گے، صرف کرونا سے دنیا کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، جبکہ سماجی نقصانات الگ ہیں۔ کرونا سے پہلے ہم 2014 میں افریقہ میں ایبولا وائرس دیکھ چکے ہیں، 2015 سے 2017 تک جنوبی امریکہ میں زیکا وائرس پھیلا تھا،   یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.