یورپی سرحدوں پر مہاجرین کے ساتھ کیا ہورہا ہے، تنظیم نے بے نقاب کردیا
برسلز: انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے مہاجرین کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرنے کی شہرت رکھنے والے یورپی ممالک کا رویہ اب تبدیل ہورہا ہے، مہاجرین کے لئے اب دروازے بند ہوتے جارہے ہیں، یورپی سرحدوں پر اب مہاجرین کو واپس دھکیلنے، تشدد کا نشانہ بنانے سمیت دیگر شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کے گروپ Mare Liberum نے یورپی سرحدوں پر سیکورٹی اہلکاروں کے مہاجرین سے سخت ہوتے روئیے پر تفصیلی رپورٹ جاری کردی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پناہ کے لئے یورپی سرحدوں تک پہنچنے والے مہاجرین پر تشدد، انہیں زبردستی واپس دھکیلنا ایک نیا موڑ ہے، تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صرف گزشتہ برس 2020 میں یورپی سرحدوں سے مہاجرین کو واپس دھکیلنے کے سینکڑوں واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں، جن میں سمندری اور زمینی دونوں سرحدوں سے مہاجرین کو واپس بھیج دیا گیا، تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ زیادہ تر واقعات یونان کی سمندری اور زمینی سرحدوں پر پیش آرہے ہیں، اور مہاجرین کو واپس ترکی دھکیلنے میں یونانی اہلکاروں کے ساتھ یورپی پولیس فرنٹکس اور نیٹو کے زیر کمان جہاز بھی اس میں ملوث پائے گئے ہیں۔
تنظیم نے سمندر اور زمینی سرحدوں پر ایسے 321 واقعات کا ریکارڈ مرتب کیا ہے، جن میں 9798 مہاجرین کو گزشتہ برس واپس دھکیلا گیا، ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، ان مہاجرین کو واپس دھکیلنے کے لئے انہیں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، انسانی حقوق تنظیم کی طرف سے رپورٹ مرتب کرنے والوں میں شامل Paul Hanewinkel کا کہنا ہے کہ اب ہم ایک ایسے یورپ میں رہ رہے ہیں، جہاں پناہ کے طالب مہاجرین کو سمندر میں بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے، اسی طرح زمینی سرحدیں پار کرکے یورپی حدود میں داخل ہونے والوں کو زبردستی واپس بھیج دیا جاتا ہے، جو عالمی اور یورپی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔