یورپی ملک میں دنیا کا سخت ترین قانون منظور۔بچے بھی زد میں آئیں گے
جنیوا: اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مخالفت کے باوجود یورپی ملک نے سخت ترین قوانین کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد پولیس کو اتنے وسیع اختیارات دے دئیے گئے ہیں، جو 12 سال کے بچوں پر بھی نافذ کئے جاسکیں گے۔
تفصیلات کے مطابق ریفرنڈم کے ذریعہ فیصلوں کی شہرت رکھنے والے یورپی ملک سوئٹزرلینڈ نے نئے سخت قانون کی منظوری دے دی ہے، اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مخالفت کے باوجود سوئس عوام نے حکومت کی بات مانتے ہوئے ریفرنڈم میں سخت قانون کی منظوری دی ہے، بل کے حق میں 57 فیصد سوئس ووٹرز نے ووٹ دیا ، واضح رہے کہ سوئس قانون کے تحت 86 لاکھ آبادی کے اس ملک میں کسی بھی تجویز پر اگر ایک لاکھ شہری دستخط کردیں ، تو اس پر ریفرنڈم کرایا جاتا ہے، لیکن اگر یہ تجویز کسی نجی فرد یا تنظیم کی طرف سے ہو تو اس کی منظوری کے لئے دگنے ووٹ درکار ہوتے ہیں، جبکہ پارلیمنٹ اگر کسی قانون پر اتفاق کرلے تو اس پر ریفرنڈم کے لئے صرف 50 ہزار دستخط کافی ہوتے ہیں، اور اس قانون کو سادہ اکثریت سے ہی منظوری ملنے پر نافذ کردیا جاتا ہے۔
نیا قانون کیا ہے؟
پارلیمنٹ کے بعد عوام کی طرف سے منظور کئے نئے قانون میں سوئس پولیس کو وسیع اختیارات حاصل ہوگئے ہیں، پولیس کسی حملے کا شک پڑنے پر پیشگی انسدادی اقدامات اٹھاسکے گی، اگر مشتبہ فرد 12 برس سے زائد کا ہوگا، تو پولیس اس کی نگرانی کرسکے گی ، اس کی نقل وحرکت محدود کردے گی، اور اس سے تفتیش کرسکے گی، اسی طرح 15 برس سے بڑی عمر والے کسی مشکوک کو 9 ماہ تک گھر میں قید کیا جاسکے گا، سوئٹزرلینڈ پرامن ملک سمجھا جاتا ہے، اور وہاں کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا، تاہم سوئس حکام کہتے ہیں کہ ان کے لئے بھی خطرہ زیادہ ہے، اس لئے یہ قانون بنایا گیا۔
دوسری طرف تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے Nils Melzer کا کہنا ہے کہ سوئس حکومت نے عوام کو گمراہ کرکے قانون کی منظوری لی ہے، فرانسیسی خبر ایجنسی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بل میں چھپے مضمرات سے سوئس عوام آگاہ نہیں ، اس دوران ایک اور ماہر نے نام نہ بتاے کی شرط پر خبر ایجنسی کو بتایا کہ سوئٹزرلینڈ جیسی جدید جمہوریت کے لئے یہ قانون شرمندگی کا ٹیکہ ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل سوئٹزرلینڈ کے ڈائریکٹر پیٹرک ویلڈر نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں پولیس کے لئے وسیع اختیارات کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔