برطانوی حکمران جماعت میں مسلم مخالف رویہ کی تصدیق ہوگئی، رپورٹ میں اہم انکشافات
لندن: برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا مسئلہ موجود ہے، تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے، دوسری طرف برطانوی وزیراعظم بورس جونسن نے ماضی میں مسلمانوں سے متعلق اپنے بیان پر معذرت کرلی ہے، مسلم رہنماؤں نے کہا ہے کہ رپورٹ نے ان کے تحفظات کی تصدیق کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے مساوات اور انسانی حقوق کمیشن کے سابق کمشنر سورن سنگھ کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلا ہے، حکمران کنزرویٹو پارٹی میں مسلم دشمن جذبات ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی کو گزشتہ 5 برسوں میں امتیازی رویہ کی 727 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے دوتہائی یعنی 496 اسلامو فوبیا کی تھیں، تحقیقاتی رپورٹ جو 51 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا سے نہ صرف کنزرویٹو پارٹی کو نقصان ہورہا ہے، بلکہ یہ معاشرے کے ایک قابل ذکر حصے کو تنہا کرنے کے بھی مترادف ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومتی پارٹی کے رہنما امتیازی رویوں کو کنٹرول کرنے میں پرجوش دکھائی نہیں دیتے، اس کے علاوہ شکایت کا نظام بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، امتیازی رویہ کا مظاہرہ کرنے والے رہنماؤں پر پابندی عائد کرنے کا پارٹی نظام بھی واضح نہیں ہے، تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ اسلامو فوبیا کی شکایات کو دوسری شکایات سے ہٹ کر دیکھا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوکل ایسوسی ایشن کی سطح پر بھی افراد اور گروہوں میں مسلم مخالف امتیازی سلوک کی مثالیں موجود ہیں۔ تاہم ان مثالوں کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ادارہ جاتی سطح پر ایسا کیا جا رہا ہے۔
منگل کے روز جاری تحقیقاتی رپورٹ میں وزیراعظم بورس جانسن کے 2018 کے بیان کا حوالہ بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے پردہ کرنے والی مسلمان خواتین کا موازنہ بینک ڈکیتوں اور لیٹر باکسز سے کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے شائع ہونے والی خبروں اور کالموں سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک مسئلہ ہے۔ تاہم وزیر اعظم بورس جانسن نے رپورٹ کی تیاری کے دوران سورن سنگھ کو بتایا کہ وہ 2018 میں استعمال کردہ الفاظ پر شرمندہ ہیں اور بطور وزیر اعظم وہ ایسے الفاظ دوبارہ استعمال نہیں کرنا چاہیں گے۔ رپورٹ میں 2016 میں لندن میں مئیر کے انتخابات میں شامل ٹوری امیدوار زیک گولڈ اسمتھ کے اس بیان کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے حریف امیدوار صادق خان کا تعلق انتہا پسندوں سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم گولڈ اسمتھ نے بھی تفتیش کے دوران کہا کہ وہ مسلم مخالف جذبات پیدا کرتے ہوئے یا ایسے جذبات کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سورن سنگھ کے مطابق ان کی رپورٹ پارٹی کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوگی۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان کی سفارشات کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
رپورٹ پر ردعمل
لیبر پارٹی کی مساوات سے متعلق شیڈو وزیر مارشا ڈی کورڈووا نے کہا ہے کہ رپورٹ حکمران جماعت کیخلاف نسلی امتیاز کی چارج شیٹ ہے، جس کا سرا وزیراعظم تک جاتا ہے،
انہوں نے کہا کہ جانسن کو مسلم کمیونٹی سے کھل کر معافی مانگنی چاہئے، حکمران کنزرویٹو پارٹی کی سابقہ چئیرپرسن سعیدہ وارثی نے رپورٹ آنے کے بعد ایک ٹویٹ میں اپنی پارٹی پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ان کی جماعت نسل پرستی سے نمٹنے کے لیے راضی ہی نہیں تھی۔ رکن پارلیمان اور سابق کنزرویٹیو وزیر خزانہ ساجد جاوید نے کہا کہ یہ رپورٹ مسلم مخالف جذبات کی پریشان کن مثال ہے۔ انہوں نے پارٹی پر زور دیا کہ وہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرے، نسلی امتیاز کیخلاف کام کرنے والی تنظیم ’’ہوپ ناٹ ہیٹ‘‘ (HOPE not hate) نے وزیراعظم جونسن کی ماضی کے بیان پر معذرت کو لفاظی قرار دیا ہے، تنظیم کے سربراہ نک لولس کا کہنا تھا کہ جونسن کے الفاظ ناکافی ہیں، برطانوی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم مسلم کونسل آف بریٹن (ایم سی بی) نے رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں درست نشاندہی کی گئی ہے کہ کنزرویٹو میں اسلامو فوبیا ایک مسئلہ ہے، تنظیم کی سیکریٹری جنرل زارا محمد کا کہنا تھا ادارہ جاتی امتیاز کیخلاف بھی اقدامات کی ضرورت ہے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ رپورٹ کی روشنی میں اقدامات اسلامو فوبیا کو روکنے کا آغاز ثابت ہوں گے۔