کیمپ بند، ڈیپورٹیشن میں تیزی، یورپی ملک نے اہم فیصلے کرلیے

0

ایتھنز: یونان نے تارکین وطن کا راستہ روکنے کیلئے کئی اقدامات کا فیصلہ کرلیا ہے، ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن پر بھی سخت پابندیاں لگائی جائیں گی، جبکہ ڈیپورٹیشن کا عمل تیز کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے، یہ بات یونان کے وزیر برائے امیگریشن نوٹس مٹراکس نے انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

تفصیلات کے مطابق یونان کے وزیر برائے امیگریشن نوٹس مٹراکس نے ملک کی مہاجرین کے حوالے سے پالیسی میں سختی لانے کا عندیہ دیا ہے،’’انفو مائیگرنٹس‘‘ ویب سائٹ کو دئیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کئی اہم اعلان کئے، جن میں افغان تارکین وطن کیلئے بھی سیاسی پناہ کے دروانے بند کرنے کا عندیہ شامل ہے، اس کے علاوہ ترکی سے یونان داخل ہونے والے تارکین کے حوالے سے بھی اہم فیصلہ کا عندیہ دیا ہے، یونانی وزیر نے کیمپوں میں موجود تارکین وطن کی آزادانہ باہر آمدورفت روکنے کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم تارکین کے تمام کیمپوں کے گرد ڈبل باڑ لگانے اور انہیں مکمل کنٹرول کرنے جارہے ہیں، کیمپوں میں گیٹ لگائے جائیں گے، صرف ان سے باہر آیا جایا جاسکے گا، تارکین کو بغیر اجازت کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی، باہر جانے والوں کے پہلے فنگر پرنٹ لئے جائیں گے، رات کو کیمپ چھوڑنے پر مکمل پابندی ہوگی، اسی طرح جن تارکین کے سیاسی پناہ کے کیس مسترد ہوجائیں گے، انہیں ڈیپورٹ کرنے تک الگ سے بنائے گئے حصے میں مکمل نگرانی میں رکھا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ اس پالیسی پر ہم نے لیس بوس کے نئے عارضی کیمپ  میں عمل شروع کردیا ہے۔

اور دیگر کیمپوں پر بھی اسے نافذ کیا جائے گا، جس کے بعد ان کیمپوں میں جانے کے لئے وکلا، صحافیوں اور این جی اوز نمائندوں کو بھی پہلے سے اجازت لینی ہوگی۔

محفوظ ممالک اور نگرانی

نوٹس مٹراکس نے کہا کہ 2015 سے یونان کے اوپر تارکین کا بہت دباؤ ہے، یہ بات سب کو سمجھنی ہوگی، اب ہم کچھ اقدامات لے رہے ہیں، ہم نے اپنی سرحدوں کی نگرانی سخت کی ہے، ہم انسانی اسمگلرز کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ یونان کو یورپ کے گیٹ  وے کے طور پر استعمال کریں، اسی  لئے ہم اپنی سرحدوں اور سمندر کا دفاع بہتر کررہے ہیں، اور یہ اقدامات عالمی قوانین کے مطابق ہیں، انہوں نے افغانستان کو بھی محفوظ ملک قرار دینے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ایک حکومت موجود ہے، محفوظ علاقے ہیں، اگر کسی کو ایک علاقے میں خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو وہ دوسرے علاقے میں منتقل ہوسکتا ہے، کچھ ملکوں کے کچھ علاقوں میں مسائل موجود ہیں، لیکن پورا ملک تو اس سے متاثر نہیں ہوتا، انہوں نے ترکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی طرح تارکین ایسے ملکوں سے یونان میں داخل ہوتے ہیں، جو محفوظ ممالک ہیں، اس لئے ہم قانون میں تبدیلی کیلئے جائزہ لے رہے ہیں، کہ آیا ہمیں ان تارکین کو پناہ دینی چاہئے، جو محفوظ ممالک سے یونان میں داخل ہوتے ہیں، جو تارکین ترکی میں محفوظ ہیں، انہیں وہیں پناہ کی درخواست دینی چاہئے۔

پرانے مہاجرین کا مستقبل

ایتھنز کے وکٹوریہ اسکوائر میں موجود مہاجرین کی مشکلات کے حوالے سے سوال پر یونانی وزیر کا کہنا تھا کہ تارکین وطن کو سمجھ لینا چاہئے کہ یونان گھر فراہم نہیں کرتا، اور یہ پالیسی یونان کی مقامی آبادی کیلئے بھی ہے، لہذا ان تارکین کو جو مہاجرین تسلیم کئے جاچکے ہیں، خود ہی اپنے لئے    ملازمت اور رہائش تلاش کرنی ہوگی، البتہ اگر ملازمت کے لئے کسی کے پاس ٹیکس نمبر نہیں ہے، تو وہ ٹیکس آفس جا کر فوری حاصل کرسکتا ہے، اسی طرح وہ رہائش کے لئے حکومت سے سبسڈی لینے کے لئے اپلائی کرسکتے ہیں، مگر گھر اور ملازمت انہیں خود ہی تلاش کرنی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یونان آئیں گے، یہاں انہیں بڑے گھر اور اچھی ملازمتیں مل جائیں گی، تو انہیں اس خیال سے نکلنا چاہئے، ہمارا ملک خود اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے، ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے، انہوں نے کہا کہ لیس بوس میں مہاجرین کا کیمپ بدقسمتی سے اندر مقیم افراد نے ہی جلایا تھا، اور ہم نے اس سلسلے میں 6 گرفتاریاں بھی کی ہیں۔ ان لوگوں نے آگ لگا کر ہزاروں افراد کی جانوں کو خطرہ میں ڈالا، آگ لگانے والے سوچ رہے تھے کہ اس طرح انہیں دوسرے یورپی ملکوں میں منتقل کردیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، نہ ہوسکتا تھا، انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی ہمارے ملک میں سیاسی پناہ کا طلب گار ہے، اسے سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے قوانین کا احترام لازمی کرنا ہوگا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.