رومانیہ میں ایرانی جج کی فلمی طرز پر پراسرار موت، ملوث کون؟

0

بخارسٹ: مفرور ایرانی جج کی رومانیہ میں پراسرار موت معمہ بن گئی، ایک طرف غلام رضا منصوری کی موت پر ایران پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں، تو دوسری جانب ایران نے اس معاملے میں رومانیہ کی حکومت کو ذمہ دار قرار دیا ہے، تاہم مغربی سیکورٹی ذرائع نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ منصوری کی ہلاکت میں ایران ملوث ہوسکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایران کے سابق جج غلام رضا منصوری  جو ملک سے فرار ہوکر رومانیہ میں مقیم تھے،بخارسٹ کے  ڈیوک ہوٹل  میں مردہ پائے گئے ہیں،  پولیس کے مطابق ہوٹل کی میزبان نے اطلاع دی تھی کہ لابی کے قریب راہداری میں ایک شخص گرا ہوا ہے، پولیس موقع پر پہنچی تو غلام رضا منصوری کی پہلے ہی موت ہوچکی تھی۔

ابتدائی طور پر یہ کہا گیا کہ انہوں نے ہوٹل کے اوپر والے فلور سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی ہے، تاہم منصوری کے وکیل اور ان کے اہلخانہ نے     بخارسٹ پولیس کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا ہے۔

جس کے بعد واقعہ کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے، اس پہلو کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ کسی نے منصوری کو اوپر سے دھکا تو نہیں دیا، تاکہ اس کی موت کو خودکشی یا حادثے کا رنگ دیا جاسکے۔

 

ایران پر شبہ

مغربی سیکورٹی ذرائع نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ منصوری کی موت میں ایرانی ادارے ملوث ہوسکتے ہیں، 66 سالہ منصوری پر ایران میں 5 لاکھ یورو رشوت لینے کا الزام تھا، جس پر وہ ملک سے فرار ہوگئے تھے۔

ایران نے ان کیخلاف انٹرپول کے وارنٹ جاری کرائے تھے اور انہیں رومانیہ میں گرفتار بھی کیا گیا تھا، تاہم 12 جون کو آخری سماعت میں رومانیہ کی عدالت نے ایران سے شواہد طلب کرتے ہوئے منصوری کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا، البتہ پولیس کو ان پر نظر رکھنے کی ہدایت کی تھی۔

منصوری کا موقف تھا کہ وہ ترکی کے مستقل رہائشی ہیں اور وہاں ان کا گھر بھی ہے، اس لئے انہیں ایران کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔

منصوری ظالم شخص تھے؟

کرپشن کا الزام لگنے سے پہلے غلام رضا منصوری ملک کے حکمران مذہبی طبقے کے قریب سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے اصلاح پسندوں اور صحافیوں  کیخلاف انتقامی کارروائیاں کیں۔

2013 میں انہوں نے بہت سے ایرانی صحافیوں کو گرفتار کرایا، یہی وجہ ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے  بھی منصوری کے رومانیہ میں موجود ہونے کی اطلاع کے بعد ان کیخلاف یورپ میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا اور جرمنی میں شکایت بھی درج کرائی گئی تھی۔

ایرانی موقف

ایران کی مصالحتی کونسل کے سیکریٹری محسن رضائی نے کہا ہے کہ رومانیہ کو منصوری کے قتل کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے اور ایران کو اس کے ذمے داروں کے بارے میں مطلع کرنا چاہیے۔

اس سے قبل ایرانی عدلیہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایک عہدہ دار نے کہا تھا کہ غلام رضا منصوری نے شاید خودکشی ہی کی ہے۔

اس دوران منصوری کے وکیل امیر حسین نجف پورسانی نے دعویٰ کیا ہے کہ غلام رضا منصوری بخارسٹ میں 10 جون کو ایرانی سفارت خانے میں گئے تھے اور رات وہیں گزاری تھی، پھر طبیعت بگڑنے پر انھیں اسپتال لے جایا گیا، جونھی وہ اسپتال پہنچے تو انھیں رومانوی پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.