یورپ کو کروڑوں تارکین کی ضرورت پڑنے والی ہے، عالمی ادارہ کی رپورٹ
برسلز: یورپ کو اگلی تین دہائیوں میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں تارکین وطن کی ضرورت پڑنے والی ہے، تارکین وطن نہ بلائے گئے تو یورپی ممالک کی معیشتیں متاثر ہونے لگیں گی، جو پہلے ہی کم شرح پیدائش اور بوڑھی ہوتی آبادی جیسے مسئلے کا سامنا کرنے لگے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب بعض یورپی ملکوں میں قوم پرست اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں یہ بیانیہ پیش کرتی نظر آتی ہیں کہ تارکین مقامی لوگوں کی نوکریاں چھین لیتےہیں، واشنگٹن میں قائم عالمی ادارہ ’’سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ‘‘ نے یورپ میں افرادی قوت کی متوقع قلت پر آنکھیں کھول دینے والی رپورٹ جاری کی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے تین برسوں یعنی 2050 تک یورپ میں ساڑھے 9 کروڑ ورکرز کم ہوجائیں گے، ایسے میں یورپ کو بہت جلد تارکین کی بڑے پیمانے پر ضرورت محسوس ہونے لگے گی، رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جاپان پہلے ہی اس صورتحال کا سامنا کررہا ہے، رپورٹ کے مطابق صرف جرمنی کو آنے والے سالوں میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ ورکرز کی ضرورت ہوگی ، جبکہ فرانس کو بھی 50 سے 80 لاکھ ورکر درکار ہوں گے، رپورٹ کے مصنف چارلس کینی کا ویب سائٹ ’’انفو مائیگرینٹ ‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے، مشینوں اور ڈیجیٹل ٹیکنالونی کے زیادہ استعمال اور کچھ ملازمتیں آوٹ سورس کرنے سے کچھ مسئلہ حل ہوسکتا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہوگا، یہ اقدامات یورپ کو بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی کے چیلنج سے نمٹنے میں ناکافی ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یورپ کے پاس اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے، اور وہ ہے، تارکین کو قبول کرنا ، انہوں نے کہا کہ تارکین کی بالخصوص ان شعبوں میں ضرورت ہوگی ، جو بوڑھی ہوتی یورپی آبادی کی ضرورت پوری کرتے ہیں، یعنی کئیر سروس اور صحت کا شعبہ ۔ انہوں نے بتایا کہ ان دو شعبوں کےعلاوہ بھی بعض شعبوں میں ہم ابھی سے افرادی قوت کی قلت دیکھ رہے ہیں، جن میں زراعت، فوڈ پراسیسنگ، ہوٹل، ٹرانسپورٹ اور کلیننگ سروس شامل ہیں ۔ چارلس کینی نے برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں نیشنل ہیلتھ سروس کے پاس نرسوں کی ایک لاکھ اسامیاں خالی ہیں، اپوزیشن لیبر کے شیڈو وزیر صحت جوناتھن ایش ورتھ نے چند ماہ قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسپتالوں کی انتطامیہ چاہتی ہے کہ جلداز جلد ان کے پاس دوسرے ملکوں سے طبی عملہ آئے ، لیکن برطانوی حکومت اجازت نہیں دے رہی،
چارلس کینی کا کہنا ہے کہ یورپ میں افرادی قوت کی کمی نوجوان افریقی تارکین وطن پوری کرسکتے ہیں، جو یورپ کے نہ صرف قریب ہیں، بلکہ افریقی ممالک میں انگریزی اور فرینچ بھی بولی جاتی ہے، جو ان کے لئے آسانی پیدا کرتی ہے، تاہم عالمی ادارہ مہاجرین کا کہنا ہے کہ 80 فیصد افریقی تارکین اپنے براعظم کے اندر ہی ہجرت کو ترجیح دیتے ہیں، دوسری طرف اقوام متحدہ اس کی ذمہ دار یورپی ممالک کی امیگریشن پالیسی کو بھی قرار دیتی ہے، اور عالمی ادارہ کا کہنا ہے کہ اگر تارکین کے حوالے سے یورپی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو 2050 تک یورپ کو ضرورت کے مقابلے میں صرف 30 فیصد تارکین ہی میسر آسکتے ہیں، جرمن انسٹی ٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ اینڈ لیبر مارکیٹ ریسرچ سے تعلق رکھنے والے ریسرچر احسان ولی زادہ نے بھی انفو مائیگرینٹ سےگفتگو میں یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرے اور تارکین کو یورپ آنے کے لئےزیادہ سے زیادہ قانونی طریقے پیش کرے، سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کو اپنی یونیورسٹیاں غیر ملکی طلبا کیلئے زیادہ سےزیادہ کھولنی چاہیں، اسی طرح متوقع تارکین کو ہنر سکھانے اور زیادہ سے زیادہ تارکین کو قبول کرنے کی طرف جانا ہوگا۔