اسلام آباد: تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت عارف علوی 11 جماعتی مخلوط حکومت کے منصوبوں میں بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آرہے ہیں، اور شہبازشریف کی قیادت میں قائم حکومت اس حوالے سے پریشانی کا شکار ہے، لیکن ان کے پاس صدر عارف علوی کا کوئی حل نہیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے موقع پر اتحادی جماعتیں خوش تھیں، اور اس وقت یہ امید لگائے بیٹھی تھیں کہ وہ وزیراعظم کے بعد صدر عارف علوی سے بھی مواخذہ کے ذریعہ جان چھڑالیں گی، مولانا فضل الرحمن تو صدر بننے کے لئے بھی لابنگ کرتے نظر آئے، جبکہ پی پی پی قیادت کی بھی اس اہم عہدہ پر نظر تھی، تاہم زمینی حقائق نے حکمران اتحاد کے ایوان صدر تک پہنچنے کے خواب بکھیر دئیے ہیں، اس دوران صدر عارف علوی حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں، پہلےحمزہ شہباز کی حلف بردار ی اور گورنر پنجاب کی تعیناتی ،اور اب نیب اور الیکشن ترمیمی بل واپس کرکے صدر عارف علوی نے اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کیا ہے، اور حکومت کے لئے پریشانی کھڑی کی ہے۔
حکومتی رہنما یوں تو صدر عارف علوی کے مواخذہ کی باتیں کرتے ہیں، تاہم عملی طور پر صدر کو ہٹانا ان کے ناممکن لگتا ہے، کیوں کہ صدر کے مواخذے کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، صدر کے مواخذے سے متعلق آئین کا آرٹیکل 47 ون کہتا ہےکہ اگر صدر کی ذہنی یا جسمانی حالت ایسی نہ رہے ، کہ وہ عہدہ کے فرائض ادا کرسکیں تو ان کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے، اسی طرح اگر صدر پر بے ضابطگی یا آئین کی خلاف ورزی کا الزام ہو تو پھر بھی مواخذہ کی تحریک پیش کی جاسکتی ہے،مواخذہ کی تحریک چئیرمین سینیٹ یا اسپیکر کے پاس جمع کرائی جاسکتی ہے، جس کے لئے متعلقہ ایوان کے نصف ارکان کے دستخط ضروری ہوتے ہیں، نوٹس ملنے کے بعد اسپیکر اس کی کاپی صدر مملکت کو بھیجتے ہیں۔
نوٹس کے 7 دن کے اندر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا ضروری ہوتا ہے، مواخذہ کی تحریک منظو ر کرنے کیلئے دونوں ایوانوں کے دوتہائی ارکان کی حمایت ضروری ہوتی ہے، اس وقت سینیٹ میں 100 جبکہ قومی اسمبلی کے 342 ارکان ہیں، اس طرح صدر کو ہٹانے کے لئے 442 میں سے 296 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔
دوسری طرف مخلوط حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں 173 جبکہ سینیٹ میں 55 سے 60 کے درمیان ارکان ہیں، اور یہ ملا کر بھی زیادہ سے زیادہ 233 بنتے ہیں، جو مطلوبہ تعداد سے کم و بیش 60 ارکان کم ہیں، لہذا مخلوط حکومت اور صدر بننے کے خواہش مند مولانا فضل الرحمن کے ایوان صدر تک پہنچنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔